ضمير مغرب ہے تاجرانہ، ضمير مشرق ہے راہبانہ
(Armaghan-e-Hijaz-36)
Zameer-e-Maghrib Hai Tajirana,
Zameer-e-Mashriq Hai Rahbana
(ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ)
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
معانی: ضمیر: دل ۔ تاجرانہ: تجارت کرنے والوں کی طرح کی ۔ راہبانہ: راہبوں کی طرح کی ۔ ترک دنیا کی ۔ دگرگوں : بدل جانا ۔ لحظہ لحظہ: لمحہ لمحہ ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے ملا ضیغم کی زبان سے عہد حاضر کی اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ مغرب والوں کی ذہنیت تاجروں کی سی ہے جو ہر وقت دولت کمانے میں لگے رہتے ہیں اور اس کے لیے خدا کو بھول کر دنیا کو پورے طور پر گلے لگائے ہوئے ۔ ان کے برعکس مشرق والے دنیا کو ترک کر کے بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہیں ۔ دنیا سے دلچسپی کی بنا پر یورپ والے ہر لمحہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ ان کا ہر دوسری لمحہ پہلے لمحے سے بہتر ہوتا ہے ۔ لیکن مشرق والوں پر جمود طاری ہے وہ جس بدحالی میں ہیں اس سے نکلنے کی نہیں سوچتے ۔ علامہ کا یہاں یہ بھی مقصود ہے کہ جب مغرب والے دنیا کے اور مشرق والے ترک دنیا کے بتوں کے پجاری بنے ہوئے ہیں ۔ تو دونوں کی زندگیاں قوانین الہیہ کے خلاف ہیں ۔ پہلے مادہ پرست اور دوسرے رہبانیت پرست بن گئے ہیں ۔ اے مسلمان اصل ضابطہ حیات تیرے پاس ہے جس میں دین اور دنیا دونوں کی بھلائی کے طریقے موجود ہیں ۔ مسلمان نہ دنیا کو اپنے اوپر مسلط کرتا ہے اور نہ دنیا سے کنارہ کش ہوتا ہے ۔ بلکہ دنیا کو اپنے دین کے تابع رکھ کر زندگی گزارتا ہے اور یہی مقصود فطرت اور منشائے اسلام ہے جو کہ فطری مذہب ہے ۔
———————
کنارِ دریا خضر نے مجھ سے کہا باندازِ محرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
معانی: کنار دریا: دریا کے کنارے ۔ بانداز محرمانہ: دوستانہ طریقے سے ۔ سکندری: سکندر کی طرح کی طاقت کا ہونا، سکندر یونان کا مشہور فاتح تھا ۔ قلندری: قلندر کی طرح کی دنیا سے بے نیازی ۔ ساحرانہ: جادوگری کے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے سکندری اور قلندری کو اصل مفہوم کے بجائے کنائے کے طور پر پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ سکندری (بادشاہت) اور قلندری (روحانیت) دونوں جادوگری کے طریقے ہیں جن کے ذریعے بادشاہ اور درویش بھولے بھالے اور سادہ دل بندگان کو اپنے اپنے فریب میں مبتلا کر کے ان کو غلامی اور مسکینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ یہاں درویشیوں سے مراد دنیا کو ترک کر دینے والے درویش ہیں ۔ اقبال نے اس شعر میں بازبان ملا ضیغم شاعرانہ انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات مجھے باطن کا علم رکھنے والے ولی خضر نے دریا کے کنارے ایک ملاقات میں بتائی ہے اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے وہ سچ اور حققیت ہے ۔
———————
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں ، مجھے خدایانِ خانقاہی
انھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
معانی: حریف: مدمقابل، دشمن ۔ خدایانِ خانقاہی: خانقاہ کے خدا، مراد گدی نشین ۔ شق: ٹوٹ جائے ۔ سنگ آستانہ: دہلیز کا پتھر ۔
مطلب: وہ لوگ جو خانقاہوں ، مزاروں اور درگاہوں پر اپنے بزرگوں کو مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں اور روحانی، اخلاقی اور انسانی ہر اعتبار سے نا اہل ہیں ۔ وہ اپنے مریدوں کو راہ ہدایت پر رکھنے اور اللہ سے وابستہ کرنے کی بجائے ان کو لوٹ رہے ہیں پیری اور مریدی کو انھوں نے پیشہ بنا رکھا ہے وہ اپنے بزرگوں کی روحانی وراثت کے وارث بالکل نہیں ہیں ۔ میں چونکہ یہ حقیقت بھولے بھالے اور سادہ دل مسلمانوں پر واضح کر رہا ہوں اور ان کو ان نا اہل گدی نشینوں اور جاہل پیروں کے فریب کے جال میں آنے سے روک رہا ہوں ۔ اس لیے آج کے پیر اور گدی نشین مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ انہیں ڈر ہے کہ میرے پیغام کی وجہ سے ان کی دہلیز کا پتھر ریزہ ریزہ نہ ہو جائے ۔ مراد ہے کہ ان کی جھوٹی پیری کا پول نہ کھل جائے اور اس طرح ان کی عقیدت مند ان سے باغی نہ ہو جائیں اور انہیں اپنی لوٹ گھسوٹ اور جھوٹی عزت و جاہ سے محروم نہ ہونا پڑے اور اس طرح ان کی عیش و عشرت کی زندگی میں خلل نہ آ جائے ۔
———————
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا
ز میں اگر تنگ ہے تو کیا ہے فضائے گردوں ہے بے کرانہ
معانی: علم و عرفاں : ظاہری علم اور باطنی علم ۔ رمز آشکارا: صاف سامنے آنے والا بھید ۔ گردوں : آسماں ۔ بے کرانہ: جس کا کوئی کنارہ نہیں ۔
مطلب: غلام قوموں کے علم ظاہری کا یہ بھید کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ کر خود کو تسلی دے دیتی ہیں کہ اگر ہمیں دنیاوی حکومت اور سرفرازی حاصل نہیں ہے تو کیا ہوا آسمان کی فضا تو ایسی ہے جس کا کوئی کنارا نہیں ۔ اس میں زندگی بسر کر لیں گے ۔ وہ خیالی پلاوَ پکا کر اپنی محکومی کا جواز نکال لیتی ہے ۔ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ غلام قو میں دنیا کی حکمرانی اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے دنیاوی فوائد کے حصول کی بجائے یہ کہہ کر اپنی تسکین کر لیتی ہیں کہ ظاہری دنیا نہ وہی روحانی دنیا ہی سہی ۔ ہم ادھر خود کو مشغول کر لیں گے اور اس طرح وہ تارک الدنیا ہو کر گزر اوقات کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد اور نصب العین بنا لیتی ہیں ۔
———————
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
معانی: خبر نہیں : معلوم نہیں ۔ خدا فریبی: خدا کو فریب دینا ۔ خود فریبی: اپنے آپ کو فریب دینا ۔ فارغ ہونا: الگ ہو جانا ۔ تقدیر: قسمت ۔
مطلب: عہد حاضر کے مسلمانوں میں تقدیر (قسمت ، نصیب) کا یہ غلط مفہوم پیدا ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہونا ہے وہ خدا نے ان کی قسمت میں پہلے سے لکھ دیا ہے اس لیے ہمیں کوشش اور عمل سے اس کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر خدا کو منظور ہواتو وہ خود ہی اسے بدل دے گا ۔ اس غلط عقیدہ کی وجہ سے وہ عمل سے کنارہ کش ہو چکا ہے ۔ اب میں ا س عقیدے کو کیا نام دوں ۔ اسے اپنے آپ کو فریب دینے والا عقیدہ کہوں یا خدا کو فریب دینے والا عقیدہ کہوں ۔ اصل میں یہ دونوں کو فریب دے رہے ہیں ۔ خدا کو اس کی پیدا کردہ تقدیر کا غلط مفہوم دے کر اورخود کو اس بنا پر بے عملی سے دوچار کر کے ۔
———————
مری اسیری پہ شاخِ گل نے یہ کہہ کے صیاد کو رُلایا
کہ ایسے پرُسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ
معانی: اسیری: قید ۔ شاخِ گل: پھول کی ٹہنی ۔ صیاد: شکاری ۔ پرسوز نغمہ خواں : جس کے نغموں میں سوز ہو، حرارت ہو ۔ گراں : بھاری ۔ آشیانہ: نشیمن، گھونسلہ ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے کہا ہے کہ شکاری نے مجھ بلبل کو گلاب کی ٹہنی سے پکڑ کر جب پنجرے میں قید کر لیا تو گلاب کے پھولوں نے قید کرنے والے کو یہ کہہ کر رلا دیا کہ اس بلبل کا گھونسلہ ہماری ٹہنی پر کوئی بوجھ نہیں تھا ۔ مراد ہے کہ جب قوم کے راہنما کو اس کی حق گوئی پر حکومت وقت گرفتار کر لیتی ہے تو اس قوم کے لوگ واویلا کرتے ہیں جس کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت خود بھی اس کو رہا کرنے پر سوچنے لگتی ہے ۔ اس میں کشمیر میں ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ان کے راہنماؤں کی پکڑ دھکڑ اور پھر بعض اوقات رعایا کے مطالبہ پر اس کو خوش کرنے کے لیے حکومت کے ان کو چھوڑنے پر آمادہ ہو جانے کی طرف اشارہ ہے ۔
———————
Translitation
Zameer-e-Magrib Hai Tajirana, Zameer-e-Mashriq Hai Rahabana
Wahan Digargoon Hai Lehza Lehza, Yahan Badalta Nahin Zamana
The ways of the West are calculating, the ways of the East are monkish;
there the times change from moment to moment, here the times see no change whatsoever.
Kinar-E-Darya Khizar Ne Mujh Se Kaha Ba-Andaz-E-Mehramana
Sikandari Ho, Qalanderi Ho, Ye Sub Tareeke Hain Sahirana
Khidr, on the bank of the river, spoke to me thus in confidence:
all are the ways of sorcery, be the actor a king of dervish.
Hareef Apna Samajh Rahe Hain Mujhe Khudayan-E-Khanqahi
Unhain Ye Dar Hai Ke Mere Nalon Se Shiq Na Ho Sang-E-Ashiyana
These people of the monasteries look upon me as their rival;
they fear lest my beautiful songs rent asunder the saint’s threshold stone.
Ghulam Qoumon Ke Ilm-O-Irfan Ki Hai Yehi Ramz Ashakara
Zameen Agar Tang Hai To Kya Hai, Fizaye Gardoon Hai Be-Karana
This is the manifest symbol of the knowledge of the slave people:
What if the earth has limits! the whole expanse of Space is boundless.
Khabar Nahin Kya Hai Naam Iss Ka, Khuda Farebi Ya Khud Farebi
Amal Se Farigh Huwa Musalman Bana Ke Taqdeer Ka Bahana
I can’t see what it is: is it self‐deception of deception of God?
Having invented the excuse of fate, the Muslim has ceased to act meaningfully.
Meri Aseeri Pe Shakh-E-Gul Ne Ye Keh Ke Sayyad Ko Rulaya
Ke Aese Pursouz Naghma Khawan Ka Giran Na Tha Mujh Pe Ashiyana
The rose twig made the hunter weep on seeing me caught in the net:
a charming sweet singer was he, his nest rested harmlessly on my branches.
————————