زمانے کی يہ گردش جاودانہ
زمانے کی یہ گردش جاودانہ
حقیقت ایک تو باقی فسانہ
کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا
فقط امروز ہے تیرا زمانہ
معانی: جاودانہ: ہمیشہ رہنے والی ۔ دوش: گزرا ہوا دن ۔ فردا: آگے آنے والا دن ۔ امروز: آج کا دن ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ زمانے کی گردش تو ماضی میں بھی جاری رہی ۔ حال میں بھی جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گی ۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ اصل شے وجود انسانی ہے باقی عناصر کو افسانے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جو انسان عملی جدوجہد کا قائل ہے وہ گزرے زمانے کی تلخیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ اور مستقبل کی نامعلوم جہتیں بھی اس کے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں کہ ان کا علم تو شاید کسی کو بھی نہ ہو گا ۔ اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کا حقیقی مقصود تو دور حاضر ہے کہ یہ وقت اس کا اپنا ہے اور اس پر ہی ایک فرد بڑے اعتماد کے ساتھ بات کر سکتا ہے ۔
———————–
Transliteration
Zamane Ki Ye Gardish Javidana
Haqiqat Aik Tu, Baqi Fasana
This revolution of time is eternal;
Only you are real, the rest is nothing but tales and legends.
Kisi Ne Dosh Dekha Hai Na Farda
Faqt Amroz Hai Tera Zamana
No one has seen yesterday or tomorrow:
Today is the only time that is yours!
————————–