محراب گل افغان کے افکارعلامہ اقبال شاعری

زاغ کہتا ہے نہايت بدنما ہيں تيرے پر

زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں ترے پر
شَپرک کہتی ہے تجھ کو کورِ چشم و بے ہنر

معانی: زاغ: کوا ۔ بدنما: برے دکھائی دینے والا:شپرک: چمگادڑ،جس کو دن میں نہیں رات میں نظر آتا ہے ۔ کور چشم: اندھا پن ۔ بے ہنر: بے فن ۔
مطلب: کوا جو خود خوبصورت نہیں ہے شہباز کو کہہ رہا ہے کہ تیرے پر میری نظر کو اچھے نہیں ، برے لگتے ہیں ۔ اس لیے تو خوبصورت نہیں ہے ۔ چمگادڑ جسے خود رات کے وقت نظر نہیں آتا اس غلط فہمی میں ہے کہ میں بینا ہوں اور شاہین نابینا ہے ۔

لیکن اے شہباز یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

معانی :فضائے نیلگوں : آسمان کی نیلی فضا ۔ پیچ و خم: رموز و اسرار ۔
مطلب: شاعر کہتا ہے کہ یہ پرندے جن کی حیثیت شہبازوں ، عقابوں اور شاہینوں کے مقابل صحرا کے پرندوں میں ایسی ہے جیسی کہ اونچے لوگوں کے مقابلے میں کم درجہ کے لوگوں کی ہوتی ہے ۔ ان کو کیا خبر کہ بلند پروازی اور تیز بینی کیا چیز ہوتی ہے ۔

ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
رُوح ہے جس کی دمِ پرواز سر تا پا نظر

معانی: طائر : پرندہ ۔ احوال و مقام: حالات و مرتبہ ۔
مطلب: انہیں کیا خبر کہ اس نیلے آسمان کی بلندیوں پر اڑنے والے شاہین کی حالات اور مراتب کیا ہے ۔ یہ تو زمین سے چند گز اوپر تک کے فاصلے پر کبھی گئے ہی نہیں ان میں ایسی طاقت اور صلاحیت ہی نہیں اس لیے ان کی شاہین کے متعلق رائے بے حقیقت ہے ۔ فضائے نیلگوں کے رموز و اسرار اور پیچ و خم سے اور وہاں پرواز کی لذت سے یہ بے خبر ہیں ۔ انہیں بلند پرواز شہباز کے حالات و مراتب کا کیا علم ہے جس کی جان بلند پرواز مین بھی نظر آسمان پر ہوتی ہے ۔ جس کو وہ اندھا کہتے ہیں وہ ایسا بینا ہے کہ بہت بلندی سے بھی زمین پر کے ذرات کو دیکھ لیتا ہے اور اپنے شکار پر اس طرح جھپٹتا ہے جس جھپٹ کی لذت کی صحرا کے ا ن کمینے پرندوں کو خبر تک نہیں ۔ اس لیے اے افغان قوم کے فرند خود کو پہچان اور کوا ، چیل، کرگس ، چمگادڑ نہ بن شاہین بن اور ان کمینے جانوروں پر جھپٹ ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button