يہ سرود قمري و بلبل فريب گوش ہے
باطنِ ہنگامہ آبادِ چمن خاموش ہے
مطلب: یہ جو قمری اور بلبل کی نغمہ گری ہے وہ دیکھا جائے تو سراسر فریب اور دھوکا ہے اس لیے کہ ان نغموں کے پس منظر میں بظاہر ہنگاموں سے بھرا ہوا چمن اور اس کا باطن خاموشی اور بے زبانی کا مظہر نظر آتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مغربی حکمرانوں کی دل خوش کن باتوں سے فریب نہیں کھانا چاہیے ۔ اس کے بجائے ملک و قوم کی بدحالی کا جائزہ لیتے ہوئے اس کا تدارک کرنا چاہیے ۔
تیرے پیمانوں کا ہے یہ اے مئے مغرب اثر
خندہ زن ساقی ہے، ساری انجمن بے ہوش ہے
معانی: پیمانہ : شراب کا پیالہ ۔ مئے مغرب: یورپ کی شراب، یورپ کی تہذیب و تمدن جو مسلمانوں نے اختیار کی ۔ خندہ زن: ہنسنے والا ۔ ساقی: مراد انگریز ، یورپی ۔ ساری انجمن بیہوش ہے: مراد انگریز کی سیاست نے پوری ملت اسلامیہ کو غفلت میں ڈال رکھا ہے ۔
مطلب: اس شعر میں اشارہ اہل مغرب کی طرف ہے کہ ان حکمرانوں نے جو تہذیب و تمدن مسلمانوں پر مسلط کیے ہیں وہ ہمارے لیے کسی طرح پر بھی سود مند نہیں ۔ اس کے باوجود اس تہذیب کے سبب خود کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ جبکہ انگریز ہمیں اس طرح احمق بنانے پر اظہار مسرت کر رہا ہے ۔
دہر کے غم خانے میں تیرا پتا ملتا نہیں
جرم تھا کیا آفرینش بھی کہ تو رُوپوش ہے
معانی: دہر: زمانہ، دنیا ۔ غم خانہ: دکھوں کا گھر ۔ تیرا: یعنی خدا کا ۔ جرم: خطا، غلطی ۔ آفرینش: مراد کائنات کا پیدا کرنا ۔ روپوش: منہ چھپانے والا، غائب ۔ سامنے نظر نہ آنے والا ۔
مطلب: انسان اس دنیا میں آ کر اس قدر بے عمل ہو گیا ہے کہ اپنا وجود کھو بیٹھا ہے گویا فطرت نے اس کو پیدا کر کے کوئی جرم کیا تھا جو انسان یوں غائب ہو گیا ہے ۔
آہ! دنیا دل سمجھتی ہے جسے، وہ دل نہیں
پہلوئے انساں میں اک ہنگامہَ خاموش ہے
معانی : پہلو: بغل ۔ ہنگامہ خاموش: ایسا شور و غل جس کی آواز نہ ہو ۔
مطلب: یہ دنیا جس چیز کو دل تصور کرتی ہے وہ اپنی ہیءت کے اعتبار سے دل محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ تو انسان کے پہلو میں ایک ایسا عضو ہے جس میں ایک خاموش ہنگامہ برپا رہتا ہے۔
زندگی کی رہ میں چل، لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے
معانی: بچ بچ کے چل: ہر معاملے میں پوری احتیاط سے کام لے ۔ میناخانہ: شراب کی بوتلوں کا ڈھیر ۔ بارِ دوش: کندھے کا بوجھ، ذمہ داری ۔
مطلب: زندگی کا سفر طے تو ضرور کرنا ہے لیکن اس سفر کے دوران احتیاط لازم ہے کہ انسان کو بے شمار ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونا پڑتا ہے ۔ اور یہ ذمہ داریاں بڑی نازک ہوتی ہیں ۔
جس کے دم سے دلّی و لاہور ہم پہلو ہوئے
آہ! اے اقبال! وہ بلبل بھی اب خاموش ہے
معانی: جس کے د م سے : جس کے سبب، اشارہ ہے میرزا ارشد گورگانی دہلوی کی طرف جن کی وجہ سے لاہور میں شعر و شاعری کا چرچا رہا ۔
مطلب: جس شخص کی وجہ سے دلی اور لاہور کے مابین رابطہ قائم ہوا وہ بھی وفات پا گیا ۔ یہاں اقبال کا اشارہ میرزا ارشد گوگانی کی موت کی طرف ہے
These songs of turtle doves and nightingales are merely the ear’s illusion
Behind this uproar the world of the garden is silent
O Western wine the effect of your goblets is only this
That cup‐bearer is laughing and the entire assembly is unconscious
In the world’s sorrowful house you are not traceable
Was creation also a crime so Your nature is concealed?
Ah! What the world considers heart is not heart
In the human breast this is a silent tumult
Walk on the path of life but walk carefully
Understand that some glass work is on your shoulders
Through whom Delhi and Lahore were drawn together
Ah! Iqbal that nightingale is silent now.
Transcription in Roman Urdu
Ye Surood-e-Qumri-o-Bulbul Faraib-e-Gosh Hai
Batin-e-Hangama Abad-e-Chaman Khamosh Hai
Tere Pemanon Ka Hai Ye Ae Mai-e-Maghrib Asar
Khanda-Zan Saqi Hai, Sari Anjuman Be-Hosh Hai
Dehr Ke Gham Khane Mein Tera Pata Milta Nahin
Jurm Tha Kya Afreenish Bhi Ke Tu Ru-Posh Hai
Ah, Dunya Dil Samajhti Hai Jise, Woh Dil Nahin
Pehlu-e-Insan Mein Ek Hangama-e-Khamosh Hai
Zindagi Ki Rah Mein Chal, Lekin Zara Bach Bach Ke Chal
Ye Samajh Le Koi Meena Khana Bar-e-Dosh Hai
.
Jis Ke Dam Se Dilli-o-Lahore Hum Pehlu Huwe
Ah, Ae Iqbal! Woh Bulbul Bhi Ab Khamosh Hai
——————–