سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

نفسيات حاکمي

اصلاحات

یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ
آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری

معانی: نفسیاتِ حاکمی: حکومت کرنے کی ذہنیت ۔ اصلاحات: انگریزوں نے برصغیر کے لوگوں کو اصلاحات کے نام پر کچھ سیاسی مراعات دی تھیں جن کو یہاں کے لوگوں نے بڑا غنیمت سمجھا تھا حالانکہ وہ حاکموں کی اپنی حاکمیت کے عرصہ کو دراز کرنے ہی کی ایک اسکیم تھی ۔ مہر: محبت، مہربانی ۔ بے مہری: جفا ، ظلم ۔ صیاد: شکاری ۔ پردہ: رازکی بات ۔ قفس: پنجرہ ۔ اسیر: قیدی ۔ کام نہ آئی: میرا کان نہ بنا سکی ۔ تازہ صفیری: تازہ نوا ، نئی آواز، میرا کلام ، میری شاعری ۔
مطلب: علامہ نے یہاں باغ، پرندہ، شکاری ، پنجرہ اور پرندے کی آواز کی علامات سے حاکم قوم کی حاکمانہ ذہنیت کی بات سمجھائی ہے ۔ انگریزوں نے مختلف وقتوں میں برصغیر کے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جو اصلاحات نافذ کی تھیں اور جن کی بنا پر وقتی طور پر غلاموں کا جوش نرم اور حاکموں کی حاکمیت طویل ہو گئی تھی ۔

رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں
شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری

معانی: قفس:پرندے کا پنجرہ ۔ اسیروں : قیدیوں ۔ گوارا: برداشت ۔ اسیری: قید ۔
مطلب: اس عمل کو سمجھاتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ یہ تو ایسے ہی ہوا ہے جیسا کہ صیاد کسی قیدی پرندے کو پنجرہ میں زیادہ دیر تک رکھنے اور اسکی اس تسلی کے لیے کہ شاید وہ باغ کی آزاد فضا ہی میں ہو مرجھائے ہوئے پھول رکھ دیتا ہے ۔ بہ ظاہر تو یہ اس پرندے پر مہربانی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں اس پر ظلم ہوتا ہے کیونکہ اس طرح وہ قید سے مزید مانوس ہو جاتا ہے اور اسے پسند کرنے لگتا ہے برصغیر کے لوگوں کے ساتھ بھی انگریزوں نے وہی عمل کیا جو شکاری پرندے کے ساتھ کرتا ہے اور ان کو اصلاحات کے کچھ تحفے دے کر غلامی پر رضامند کرنے پر آمادہ کر لیا ۔ یہ دراصل ان لوگوں پر مہربانی نہیں تھی بلکہ ظلم تھا کیونکہ اس سے غلام کی قید اور طویل ہو گئی اور جو آوازیں ان لوگوں نے یا علامہ نے اپنی شاعری کے ذریعے نکالی تھیں وہ سب بے اثر ہو کر رہ گئیں ۔ اور لوگوں نے اصلاحات انگریز کو آزادی کا بدل سمجھ کر گلے سے لگا لیا ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button