يہ مدرسہ يہ کھيل يہ غوغائے روارو
یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے رَوا رَو
اس عیشِ فراواں میں ہے ہر لحظہ غمِ نو
معانی: غوغائے روارو: بھاگ دوڑ کا شوروغل ۔ عیش فراواں : زیادہ خوشی ۔ لحظہ: لمحہ ۔ غم نو: نیا غم ۔
مطلب: اس شعر میں جدید مدرسوں کے بات کرتے ہوئے علامہ بزبان محراب گل افغان کہتے ہیں کہ اس میں اس علم کا فقدان ہے جو انسان کو اپنی معرفت سکھاتا ہے اور آدمی کو جانور نہیں بننے دیتا اور اس کے نتیجے میں ان مدرسوں میں کھیل کود اور دوڑ دھوپ کا شوروغل زیادہ ہے ۔ طالب علم اس کھیل کود کے ماحول کو خوشی کا بڑا سامان سمجھتے ہوئے اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ عیش وقتی طور پر تو اس کے دل کو خوش رکھتا ہے لیکن اس زندگی کو نئے نئے غموں سے آشنا کر دیتا ہے اور اس کی واحد وجہ علم کے مقاصد کا غلط ہونا ہے ۔
وہ علم نہیں زہر ہے اَحرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو
معانی: احرار: آزاد لوگ ۔ دو کف جو: جو کی دو مٹھیاں ، دو روٹیاں ، پیٹ کا دھندہ ۔
مطلب: مغربی علوم جو ہماری درسگاہوں میں پڑھائے جاتے ہیں ان کا مقصد طالب علموں کو روح سے آشنا کرانا نہیں بدن پالنے کے طریقے سکھانا ہے ۔ ہمارے مدرسے جو تعلیم دے رہے ہیں وہ تن پروری اور شکم بھری کے لیے ہے ۔ انسانی اقدار پیدا کرنے کے لیے نہیں ہے ۔ یہ علم بندہ آزاد کے حق میں زہر کا کام کرتا ہے ۔ اسکے اندر سے آزادی کے جذبے کو کھینچ کر لے جاتا ہے اور اسے پیٹ کی غلامی اور اسکی وجہ سے اسے سرکار کی غلامی کرنا سکھاتا ہے ۔ یہ علم صرف دو جو کی روٹیوں کے لیے پڑھایا جاتا ہے ۔ یعنی تن پروری اور شکم پروری اور نوکری چاکری کرنے کے سوا س کا کوئی فایدہ نہیں ۔ اس سے پیٹ بھرنے کے طریقے تو آ جاتے ہیں لیکن سینہ بے نور ہو جاتا ہے ۔ تن اجلا ہو جاتا ہے اور من میلا ہو جاتا ہے اور جدید علم پڑھے ہوئے مسلمان اپنی اسلامی اقدار سے ناواقف انسان نما حیوان بن جاتے ہیں ۔
ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے
اسبابِ ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو
معانی: ادب: شاعری اور دوسرے اصناف ادب ۔ فلسفہ: عقلی و فکری علم ۔ اسباب: سبب کی جمع ، وجہ ۔ ہنر: فن ۔ تگ و دو: دوڑ دھوپ، کوشش، ناداں : بے وقوف ۔
مطلب: اے بے وقوف شخص عقل و فکری علوم پڑھنے یا شعر و شاعری اور ادب کے دوسرے اصناف سیکھنے میں کوئی عقلی فائدہ نہیں ہے ۔ اس کے بجائے کوئی ہنر کوئی فن سیکھ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کوشش کرے ایسے ہنر سیکھنے سے جس یورپی فکر و عمل کا منفی اثر نہ ہو انسان روزی کمانے کے قابل بھی ہو جائے اور انسان بھی رہے ۔
فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند
شام اس کی ہے مانندِ سحر صاحبِ پرتو
معانی: نوامیس: جمع پوشیدہ راز ۔ غالب: مسلط، چھایا ہوا ۔ ہنر مند: ہنر والا ۔ مانند سحر: صبح کی طرح ۔ صاحب پرتو: دھوپ والا ۔ اجالے والا، روشنی والا ۔
مطلب: جو شخص ہنر جانتا ہے وہ قدرت کے پوشیدہ رازوں پر چھایا ہوا یا اس پر مسلط ہوتا ہے وہ اپنے ہنر سے قدرت کی اشیا سے مختلف کام لے لیتا ہے اس کی شام بھی اس کی صبح کی مانند روشن ہوتی ہے ۔ کاریگر ساری زندگی اپنے ہاتھ کی کمائی کی وجہ سے خوش حال رہتا ہے اور قدرت کے نئے نئے قوانین دریافت کر کے لوگوں کے لیے سودمند کام کرتا رہتا ہے ۔
وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے
ٹپکے بدنِ مہر سے شبنم کی طرح ضو
معانی: صاحب فن: اہل فن، فن کا مالک ۔ بدن مہر: سورج کا جسم ۔ شبنم: اوس ۔ ضو: روشنی ۔
مطلب: اہل فن کو اللہ نے یہ قدرت علم ایجاد دی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ ناممکن کو بھی ممکن کر سکتا ہے اور چاہے تو سورج کے جسم سے اس طرح روشنی ٹپکا دے جس طرح اوپر سے اوس ٹپکتی ہے ۔