Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Ye Aish Farawan, Ye Hakoomat, Ye Tijarat
سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

يورپ اور يہود

یہ عیشِ فراواں ، یہ حکومت، یہ تجارت
دل سینہَ بے نور میں محرومِ تسلی

معانی: عیش فراواں : بہت زیادہ عیش و عشرت ۔ محروم تسلی: اطمینان سے بے بہرہ ۔
مطلب: ایک وقت تھا جب عیسائیوں اور یہودیوں میں بہت بغض اور دشمنی تھی لیکن مسلمانوں کے خلاف گٹھ جوڑ کرنے کے لیے عیسائیوں نے دشمنی کو چھوڑ کر یہودیوں کے لیے دل کو نرم کر لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ہزاروں سال سے غلام اور خدا کے غضب کی ماری ہوئی قوم اپنی چالاکی اور مکاری سے سارے یورپ پر اس طرح چھا گئی ہے کہ بظاہر وہاں عیسائی حکمران ہیں لیکن حقیقت میں ہر کام کی باگ دوڑ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے ۔ اس پہلے شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ جدید ترقی کی وجہ سے اگرچہ سارے یورپ میں عیش فراوان ہے یورپی اقوام دوسری قوموں پر حکومت بھی کر رہی ہیں اور دنیا کی ساری تجارت بھی ان کے ہاتھ میں ہے لیکن اہل یورپ کے سینے ایمان ، صداقت اور انسانیت کے نور سے محروم ہو چکے ہیں اور باوجود ساری ترقی اور ہر قسم کی سہولت کے ان کے دل اطمینان سے محروم ہیں ۔

تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادیِ ایمن نہیں شایانِ تجلی

معانی: افرنگ: یورپی اقوام ۔ وادی ایمن: وہ وادی جہاں حضرت موسیٰ کو خدا کی تجلی نصیب ہوئی تھی ۔
مطلب: جب سے یورپ والوں کو بھاپ کی طاقت کا علم ہوا ہے انھوں نے اپنے ملکوں میں ہرطرف اور ہر طرح کے کارخانے لگا لیے ہیں جن کی مشینیں کوئلے سے بننے والی بھاپ کے ذریعے چلتی ہیں اور ان کارخانوں کی چمنیوں سے جو دھواں نکلتا ہے اس نے یورپ کے ملکوں کے بیشتر شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ اس تناظر میں علامہ کہتے ہیں کی یور پ والے جو دھوئیں کی تاریکی کے ساتھ ساتھ دل اور سینے کی تاریکی میں ڈوب چکے ہیں ۔ ان کے ملک اس قابل نہیں رہے کہ وہاں اس تجلی کا ظہور ہو جو وادی سینا میں حضرت موسیٰ پر ہوا تھا ۔ مراد یہ ہے کہ اہل یورپ خدا سے اور دین سے دور ہو چکے ہیں اور صرف مادی ترقی کے پیچھے لگ گئے ہیں ۔

ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیبِ جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولّی

معانی: نزع کی حالت : مرنے کے قریب ۔ تہذیب جوانمرگ: جوانی ہی میں مر جانے والی تہذیب ۔ کلیسا: گرجا ۔ متولی: نگران، محافظ، انتظام کرنے والے ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یورپ کی تہذیب اپنے جوانی ہی کے عالم میں مرنے کے قریب پہنچ گئی ہے ۔ عیسائیوں اور ان کے مذہب کی اصلیت اس تہذیب کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے اور صرف گرجے عیسائی مذہب کی نشان دہی کے لیے باقی موجود ہیں ۔ اور جس تیزی سے یہودی باوجود اقلیت ہونے کے اپنی چالاکی، عیاری، مکاری اورر دولت کے بل بوتے پر پورے یورپ پر چھا رہے ہیں کچھ عجب نہیں کہ وہ عیسائیوں کے گرجوں کو بھی خرید لیں اور اس طرح عیسائی قوم ایک مادہ پرست قوم کی حیثیت سے تو زندہ رہے لیکن عیسائیوں کی اصلیت کے اعتبار سے مر جائے ۔ اقبال کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہو چکی ہے ۔ یہودی نہ صرف سارے یورپ کی تجارت اور حکومت پر چھا چکے ہیں بلکہ امریکی ممالک میں بھی تجارت اور حکومت کی اصل باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے ۔ عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کے ساتھ یہ گٹھ جوڑ بہت مہنگا پڑا ہے اور وہ مسلمانوں کو تباہ کرانے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی یہودیوں کے ہاتھوں تباہ کرا چکے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button