با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

يہ آيہ نو ، جيل سے نازل ہوئي مجھ پر

يہ آيہ نو ، جيل سے نازل ہوئي مجھ پر
گيتا ميں ہے قرآن تو قرآن ميں گيتا

کيا خوب ہوئي آشتي شيخ و برہمن
اس جنگ ميں آخر نہ يہ ہارا نہ وہ جيتا

مندر سے تو بيزار تھا پہلے ہي سے ‘بدري’
مسجد سے نکلتا نہيں، ضدي ہے مسيتا

———————-

Transliteration

Ye Aaya-e-Nau, Jail Se Nazil Huwi Mujh Par
Gita Mein Hai Quran To Quran Mein Geeta

Kya Khoob Huwi Aashti-e-Sheikh-o-Barhman
Iss Jang Mein Akhir Na Ye Hara Na Woh Jeeta

Mandar Se To Bezar Tha Pehle Hi Se ‘Badri’
Masjid Se Nikalta Nahin, Ziddi Hai ‘Masita’

———————-

This new ‘verse’ was revealed to me from the jail
That the Quran is in the Gita and the Gita is in the Quran

How well friendship developed between Sheikh and Brahmin
In this battle after all neither this nor that was winning

“Badri” was already disgusted with the temple
“Masita” does not step out of the mosque, he is stubborn.

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button