اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

مردان خدا

وہی ہے بندہ حُر جس کی ضرب ہے کاری
نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیّاری

معانی: بندہ حُر: آزاد مرد، مجاہد ۔ کاری: مہلک ۔ حرب: لڑائی ۔ عیاری: چالاکی ۔
مطلب: آزاد بندہ اور حریت پسند بندہ وہ ہے جس کی چوٹ یا جس کا وار سخت ہوتا ہے اور سیدھا ہوتا ہے نہ کہ وہ شخص جو مقابلے اور جنگ میں ہیراپھیری چالبازی اور فریب سے کام لیتا ہے ۔

ازل سے فطرتِ احرار میں ہیں دوش بدوش
قلندری و قبا پوشی و کُلہ داری

معانی : فطرتِ احرار: آزاد بندوں کے برابر ۔ قبا پوشی: قبا پہننا ۔
مطلب: آزاد بندوں کی جبلت ازل سے یہ ہے کہ ان میں قلندری، درویشی اور سلطانی ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ درویش ہوتے ہوئے سلطان اور سلطان ہوتے ہوئے درویش ہوتے ہیں ۔

زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے
انھی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری

معانی: یہ آزاد لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن میں سے چنگاری کو لے کر زمانہ سورج بنا دیتا ہے ۔ وہ دیکھنے میں بے سرو سامان اور ناچیز سے ہوتے ہیں ۔ لیکن عشق الہٰی کی حرارت سے ان کی چنگاری آفتاب کی حرارت پیدا کر لیتی ہے یعنی کچھ سامان ظاہری نہ رکھتے ہوئے بھی وہ سب کچھ رکھتے ہیں ۔ زمانہ اور اشیائے زمانہ ان کے تابع ہوتی ہیں ۔

وجود انھی کا طوافِ بتاں سے ہے آزاد
یہ تیرے مومن و کافر تمام زنّاری

معانی: طوافِ بتاں : بتوں کے گرد پھرنا ۔ زناری: ہندووَں کی طرح زنار پہنے ہوئے ۔
مطلب: یہ مردانِ خدا وہ ہیں جو اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجتے ہیں اور نہ کسی کے آگے جھکتے ہیں ۔ ورنہ عامی مسلمانوں کو بھی دیکھا ہے اور کافروں کو بھی دیکھا ہے ۔ سب زنار باندھے ہوئے ہیں ۔ بت پرست ہیں ۔ بت ضروری نہیں کہ پتھر کے ہوں ، غیر اللہ اور بہت کچھ ہے ۔ دنیا ہے، فریب ہے، رشوت ہے، لوٹ کھسوٹ ہے، حق مارنا ہے، جعلی چیزیں بیچنا ہے ۔ ان سب کے پیچھے لگنا ان کا پجاری بننا ہی تو ہے لیکن اللہ کے بندے ان سب بتوں کے پھیرے لینے سے آزاد ہوتے ہیں ۔ وہ صرف اللہ کی بندگی اختیار کرتے ہیں اور اور صرف اسے اپنا پروردگار اور رب تسلیم کرتے ہیں ۔ باقی ہر قسم کے لوگ جنہیں حرص، لالچ اور کشش دنیاوی اللہ سے دور لے جاتی ہے اور وہ اس کی ربوبیت کے قائل نہیں اللہ سے غافل ہوتے ہیں ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button