با ل جبر یل - رباعيات

وہ ميرا رونق محفل کہاں ہے

وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
مری بجلی مرا حاصل کہاں ہے

مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقام دل کہاں ہے

مطلب: اس رباعی میں اقبال نے سوالیہ انداز میں اپنے محبوب حقیقی کو رونق محفل کی طرح پیش کیا ہے ۔ یہاں محبوب سے مراد رب ذوالجلال ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مفروضہ اپنی جگہ درست کہ خدا ہر جگہ موجود ہے ۔ اس کا وجود بجلی کی رو کے مانند ہے جو نظر نہیں آتی لیکن اپنے وجود کا احساس ضرور دلاتی ہے ۔ وہ یقینا خدا ہے لیکن اب تک اس کے بارے میں یہ علم نہ ہو سکا کہ اس کا مسکن کونسا ہے ۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ وہ دل کی خلوتوں میں رہتا ہے تا ہم آج تک یہ راز آشکار نہیں ہو سکا کہ دل کے جس مقام پر خدا کا مسکن ہے وہ مقام کہاں ہے ۔ ابھی تک یہ معاملہ سوالیہ نشان کے مانند ہے ۔

———————

Transliteration

Woh Mera Ronaq-e-Mehfil Kahan Hai
Meri Bijli, Mera Hasil Kahan Hai

Where is the moving spirit of my life?
The thunder‐bolt, the harvest of my life?

Maqam Iss Ke Hai Dil Ki Khalwaton Mein
Khuda Jane Maqam-e-Dil Kahan Hai!

His place is in the solitude of the heart,
But I know not the place of the heart within.

————————–

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button