سلطان ٹيپوکی وصيت
سلطان ٹیپو کی وصیت
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
معانی: سلطان ٹیپو: سلطان حیدر علی والی میسور کا بیٹا فتح علی خان ٹیپو جو انگریزوں کے خلاف لڑتا ہوا 1799ء میں شہید ہوا ۔ اس نے جو وصیت کی تھی یہ شعر اس کا چربہ ہے ۔ رہِ نوردِ شوق: عشق کے راستے کا مسافر ۔ محمل: اونٹ کا کجاوہ جس میں لیلیٰ بیٹھا کرتی تھی ۔
مطلب: ٹیپو سلطان چونکہ خود شیر کی طرح بہادر تھا اس نے انگریز کی غلامی کے مقابلے میں لڑتے ہوئے شہادت کو ترجیح دی تھی اس لیے وہ مسلمان کو بھی بہادری کا پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تو عشق کے راستے کا مسافر ہے اس راہ کے مسافر ٹھہرا نہیں کرتے ۔ اگر لیلیٰ جیسی معشوق بھی دعوت دے کہ اس کے کجاوے میں آ کر تسکین پا لے تو اس کو قبول نہ کر ۔ تیرا کام ہے چلتے رہنا ۔ منزل پر منزل مارنا ۔ کیسے ہی ناموافق حالات ہوں ان سے ٹکر لے کر آگے بڑھتے رہنا اور کیسی ہی دل خوش کن منزل ہو وہاں قیام نہ کرنا اور ہر دم نئی منزل کی تلاش میں رہنا ۔
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
معانی: اگر تو تنگ اور بے طوفان ندی کی مانند ہے تو ہمت نہ ہار ۔ بڑھ کر ایک ایسا دریا بن جا جس میں تیز اور بلند طوفان اٹھتے ہیں ۔ اگر تجھے ساحل بھی میسر آئے تو اس کو بھی قبول نہ کر اور ساحل کو توڑتا ہوا نکل جا ۔ مراد یہ ہے کہ اے مسلمان اگر تو کمزور ہے تو کوئی بات نہیں ۔ شوق اور عشق کے زور سے اپنی طلب میں طاقت پیدا کر اور اعلیٰ مقاصد کو حاصل کر ۔
کھویا نہ جا صنم کدہَ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
معانی: صنم کدہ: بت خانہ ۔
مطلب: جب کائنات پیدا کی گئی اور حضرت آدم کو وجود عطا کیا گیا تو اللہ نے یہ بات آدم کی گھٹی میں رکھ دی جو مجھ تک جبریل کے واسطے سے پہنچی ہے کہ دیکھنا ایسا دل پیدا نہ کرنا جو عقل کا غلام ہو جو عقل کے پیچھے چلنے والا ہو کیونکہ بہت سے مرحلے زندگی میں ایسے آتے ہیں جہاں عقل کے پیچھے چلنا خوار ہونا اور عشق کی پیروی کرنا با اعتبار اور معزز ہونا ہوتا ہے ۔
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
معانی: صبح ازل: کاءنات کی پیداءش یا زمانہ کے آغاز کے وقت۔ جبرءیل: خدا تعالیٰ کا ایک مقرب فرشتہ۔
مطلب: جب کاءنات پیدا کی گءی اور حضرت آدم کو وجود عطا کیا گیا تو اللہ نے یہ بات آدم کی گھٹی میں رکھ دی جو مجھ تک جبریل کے واسطے سے پہنچی ہے کہ دیکھنا ایسا دل پیدا نہ کرنا جو عقل کا غلام ہو جو عقل کے پیچھے چلنے والا ہو کیونکہ بہت سے مرحلے زندگی میں ایسے آتے ہیں جہاں عقل کے پیچھے چلنا خوار ہونا اور عشق کی پیروی کرنا بااعتبار اور معزز ہونا ہوتا ہے۔
باطل دُوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہَ حق و باطل نہ کر قبول
معانی: حق و باطل میں شرکت ، یعنی حق اور باطل میں تمیز نہ کرنا ۔
مطلب: باطل اور کفر ایک خدا کے بجائے زیادہ خداؤں کو پسند کرتا ہے ۔ جب کہ سچائی یا حق صرف ایک خدا کو پسند کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی اور کی شرکت گوارا نہیں کرتا ۔ اس لیے اے مسلمان تو بھی حق اور باطل کے درمیان شرکت اور میل جول پسند نہ کر اور حق کو باطل سے الگ رکھ ۔ دنیا میں ہمیشہ حق کا ساتھ دے ۔ چاہے عقل تجھے لاکھ کہے کہ اس میں یہ نقصان ہے اور وہ نقصان ہے اور باطل کے پیچھے کبھی نہ لگنا چاہے عقل تجھے لاکھ کہے کہ اس میں فائدہ ہے اور وہ فائدہ ہے عقل کے بجائے ہمیشہ عشق کو پیش نظر رکھنا کہ اسی میں حقیقی زندگی ہے