Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Tha Ye Allah Ka Farmaan Keh Shikwah Parweez
اردو نظمیںعلامہ اقبال شاعری

سر اکبرحيدري، صدر اعظم حيدر آباد دکن کے نام

سر اکبرحيدري، صدر اعظم حيدر آباد دکن کے نام
‘يوم اقبال’ کے موقع پر توشہ خانہ حضور نظام کي طرف سے ، جو
صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے ايک ہزار روپے کا چيک بطور
تواضع وصول ہونے پر

تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات

تعارف: دکن برصغیر کے جنوب میں دور انگریزی میں ایک بہت بڑی ریاست تھی ۔ جس کا نواب نظام الملک کہلاتا تھا ۔ علامہ کے فوت ہونے کے چند ماہ پہلے جب پورے متحدہ ہندوستان میں یوم اقبال منایا گیا دکن کے صدر حیدری نے ایک ہزار روپے کا چیک علامہ کو بھیجا تھا اور ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ چیک میں نے ریاست کے سرکاری توشہ خانے سے اپنی ذاتی کوشش کے بعد بھجوایا ہے ۔ علامہ نے یہ خط پڑھ کر چیک واپس کر دیا اور اپنے تاثرات اس نظم میں قلم بند کیے ۔
معانی: فرماں حکم ۔ شکوہ: شوکت ۔ پرویز: ایران کا ایک بادشاہ ۔ قلندر: وہ درویش جو اللہ کے سوا ہر کسی سے بے نیاز ہو ۔ ملوکانہ صفات: شاہانہ صفتیں ۔
مطلب: یہ اللہ کا حکم تھا کہ ایران کے بادشاہ پرویز جیسا دبدبہ اور شوکت اس درویش کو عطا کیا جائے جو میرے سوا ہر ایک سے بے نیاز ہے جو بہ ظاہر تو فقر و فاقہ میں مبتلا ہے لیکن بہ باطن اپنے اندر شاہانہ صفات رکھتا ہے ۔ یہاں اس درویش سے مراد علامہ خود ہیں۔

——————————-

مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر
حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات

معانی: شہنشاہی کر: بادشاہوں اور امیروں کی طرح روپیہ خرچ کر ۔ حسن تدبیر: منصوبہ کی خوبصورتی ۔ آنی: جو لمحہ بھر کے لیے ہے ۔ فانی: جو مٹ جانے والا ہے ۔ ثبات دے: دوام بخش، ہمیشگی عطا کر ۔
مطلب: خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ یہ رقم میں جو بھیج رہا ہوں اسے اچھی منصوبہ بندی سے اگر خرچ کرو گے تو یہ تمہارے لیے وقتی فائدہ اور آسائش مہیا کرنے کے علاوہ کافی دیر تک کارآمد بھی ہو گا ۔ اور تم اس سے امیروں اور بادشاہوں کی طرح کی عیش کی زندگی بسر کر سکو گے ۔

——————————-

میں تو اس بارِ امانت کو اٹھاتا سرِ دوش
کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات

معانی: بار امانت: امانت کا بوجھ ۔ سردوش: کندھے پر ۔ کام درویش: درویش کے حلق، غریب کے منہ ۔ تلخ: کڑوی ۔ مانند: مثل ۔ نبات: مصری، شکر ۔
مطلب : اقبال کہتے ہیں میں چونکہ درویش شخص ہوں اور غیروں کی کڑوی چیزوں کو شکر سمجھ کر حلق میں اتار لیتا ہوں اس لیے میرے لیے یہ بھی ممکن ہو سکتا تھا کہ میں یہ تلخ حقیقت بھی قبول کر لیتا اور بھیجے ہوئے چیک کو قبول کر لیتا لیکن سر اکبر حیدری کا یہ لکھنا کہ یہ رقم سرکاری خزانے سے میری کوشش کی وجہ سے بھیجی جا رہی ہے مجھے پسند نہ آئی ۔ اور میرے کندھوں نے احسان کے اس بوجھ کو برداشت نہیں کیا ۔

——————————-

غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات

معانی: غیرت فقر: فق کی خودداری ۔ فقر بمعنی درویشی ۔ خدائی: حکومت، حکمرانی ۔ زکات: ایک مذہبی اسلامی ٹیکس جو امیروں سے لے کر غریبوں کو دیا جاتا ہے ۔ اصل لفظ زکواۃ ہے ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ سر اکبر حیدری کا اپنے خط میں یہ لکھنا کہ یہ رقم میری بطور صدر ریاست کوشش کی وجہ سے آپ کو بھیجی جا رہی ہے میرے لیے کسی امیر سے ضرورت مند اور غریب ہونے کے اعتبار سے زکواۃ لینے کے برابر تھے ۔ اس لیے میری درویشی کی خودداری کے لیے قابل قبول نہ تھی ۔ کیونکہ درویش تو فقر و فاقہ کی حالت میں بھی منعموں ، امیروں اور شاہوں سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارتا ہے

——————————-
Transcription In Roman Urdu
Sir Akbar Haideri, Sadar-E-Azam Haidar Abad Dakkan Ke Naam
Tha Ye Allah Ka Farman K Shikwa-E-Parwaiz
Do Qalander Ko K Hain Iss Mein Mulukana Sifaat
Mujh Se Farmaya K Le, Aur Shehanshahi Kar
Husn-E-Tadbeer Se De Ani-O-Fani Ko Sibat
Mein To Iss Bar-E-Amanat Ko Uthata Sar-E-Dosh
Kaam-E-Darvesh Mein Har Talakh Hai Manind-E-Nabat
Ghairat-E-Faqr Magar Kar Na Saki Iss Ko Qabool
Jab Kaha Uss Ne Ye Hai Meri Khudai Ki Zakaat !
____________
Translation In English
TO SIR AKBAR HYDARI PRIME MINISTER OF HYDERABAD DECCAN
On Receiving a Cheque of Rs. 1909/- from the Privy Purse of his Exalted Highness, the Nizam of Deccan as a token of goodwill.
It was God’s order that grandeur of kings,
Give to a Hermit who holds the king’s wings.He bade me, "take reins and rule like kings,
With wits beauty show them, the lasting springs.”I was ready to lift His Trust on Wings,
Each bitter in my palate turns sweet things.My faqr’s envy but took not this role,
When he said it was His Godship’s dole.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button