Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Tha Jahan Madrasa-e-Sheri-o-Shehanshahi
بال جبریل (حصہ دوم)

تھا جہاں مدرسہ شيری و شاہنشاہی

تھا جہاں مدرسہَ شیری و شاہنشاہی
آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی

معانی: روباہی: لومڑی کی طرح بزدل ۔
مطلب: ماضی کے حوالے سے اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ جن تربیت گاہوں میں شیر شاہ سوری جیسے عظیم المرتبت اور جہاں باہمت حکمرانوں کا دور دورہ تھا وہ آج اپنی بے عملی کے سبب بزدل اور ناکارہ لوگوں کی آماجگاہ ہیں ۔

نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اللہی

معانی: شبانی: چراواہا بن کر بکریاں چرانا ۔ کلیم اللہی: حضرت موسیٰ کی طرح سے اللہ سے ہم کلام ہونا، یہاں مراد ہے باطل قوتوں سے ٹکرا جانا ۔
مطلب: ہمارے عہد کے قائدین میں وہ تربیت اور جوہر مفقود ہے جو کہ حضرت موسیٰ جیسے باوقار پیغمبر میں موجود تھا ۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ نے سالہا سال تک حضرت شعیب کی بکریاں چرا کر اپنا مقصود حاصل کیا اور بنی اسرائیل کی رہنمائی کا شرف پایا ۔

لذت نغمہ کہاں مرغِ خوش الحان کے لیے
آہ اس باغ میں کرتا ہے نفس کوتاہی

معانی: خوش الحان: اچھی آواز والا ۔
مطلب: جس ناسازگار ماحول میں حبس کا سا سماں ہو وہاں کسی بھی آزاد منش انسان کے لیے سانس لینے کی گنجائش کہاں ہوتی ہے ۔

ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی

معانی: ایک سرمستی و حیرت: مراد عشق ۔ تمام آگاہی: پوری طرح باخبر ہونا ۔
مطلب: جو شخص معرفت الہٰی سے آگاہ ہوتا ہے ایک سرمستی و حیرت تو اس کے لیے ہر ممکن سطح پر آگاہی کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ جب کہ اسی حوالے سے دوسرا عمل فلسفیوں سے تعلق رکھتا ہے جہاں سرمستی و حیرت کے باوجود کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا ۔

صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی

معانی: صفتِ برق: بجلی کی طرح ۔ فکر بلند: بلند خیالی ۔ ظلمتِ شب: رات کا اندھیرا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میری فکر اس بلند اور روشن ہے کہ اس کو برق تابناک سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ جو شب کی تاریکی میں مسافروں کی رہنمائی کرتی ہے ۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ میری فکر اور میری شاعری بھی اسی طرح سے انسانوں کی رہنمائی کے فراءض انجام دیتی ہے تو کسی طور پر یہ بات غلط نہ ہو گی ۔ اقبال کے نزدیک ان کی فکر اور شاعری روشن چراغ کی مانند ہے جو لوگوں کو راہ دکھاتا ہے ۔

—————————

Translation

Tha Jahan Madrasa-e-Sheri-o-Shehanshahi
Aaj Un Khanqahon Mein Hai Faqt Rubahi

Nazar Ayi Na Mujhe Qafla Salaron Mein
Woh Shabani Ke Hai Tamheed-e-Kaleem-Ullahi

Lazzat-e-Naghma Kahan Murg-e-Khush Alhan Ke Liye
Aah, Iss Bagh Mein Karta Hai Nafas Kotahi

Aik Sar Masti-o-Hairat Hai Sarapa Tareek
Aik Sar Masti-o-Hairat Hai Tamam Agahi

Sifat-e-Barq Chamakta Hai Mera Fikr-e-Buland
Ke Bhatakte Na Phirain Zulmat-e-Shab Mein Raahi

————————————–

The cloisters, once the rearing place of daring men and royal breed,
Alas! Now nothing else impart—To foxy ways they pay much heed.

The chiefs who lead the caravan train, of that virtue quite are blank,
Which is found in shepherd’s task and leads to Moses’ noble rank.

How can the birds with voices sweet the thrilling joy of song attain?
Alas! The birds in hostile mead cannot their breath for long sustain.

One type of rapture and surprise is darkness deep and pitch complete;
The other rapture and surprise with love and knowledge is replete.

My thoughts sublime that soar aloft, like the flash of lightning, show the way;
Lest travellers in the dark of night should miss the track and go astray.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button