Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Tere Ishq Ki Intiha Chahta Hun
با نگ درا - غز ليات - (حصہ اول)علامہ اقبال شاعری

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

معانی: انتہا: اخیر ۔ سادگی: بھولپن ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں محبوب سے مخاطب ہو کر شاعر کہتا ہے کہ میں تیرے عشق کے ان انتہائی مراحل تک رسائی حاصل کرنے کا خواہاں ہوں جن سے آگے اور کچھ نہیں لیکن یہ خواہش میری سادگی کے علاوہ بظاہر اور کچھ نظر نہیں آتی ۔

ستم ہو کہ ہو وعدہَ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

معانی: بے حجابی: مراد کھل کر سامنے آنا ۔ صبر آزما: جس سے قوتِ برداشت پرکھی جائے ۔
مطلب: میرے نزدیک ظلم و ستم اور وعدے وعید ایک ہی نوعیت کے ہیں کہ عشق و محبت میں یہی کچھ ہوتا ہے اور اسی قسم کی توقعات رکھی جانی چاہیں ۔

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

معانی: زاہدوں : جمع زاہد، عبادت گزار ۔ آپ کا سامنا: مراد خدا کا سامنے ہونا ۔
مطلب: بہشت کا تصور تو زاہدوں کو ہی مبارک ہو کہ ان کا زہد و تقویٰ اسی مقصد کا حامل ہوتا ہے جب کہ میرے لیے تو اپنے محبوب سے ملاقات ہی کافی ہے ۔ یہ ملاقات ہی میرے لیے جنت سے کم نہیں ۔

ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

معانی : لن ترانی: تو مجھ نہیں دیکھ سکتا، حضرت موسیٰ کے درخواست پر خدا کا جواب ۔
مطلب: ہر چند کہ میرا دل مختصر سا ہے لیکن اس میں جو تمنا موجزن ہے وہ یہی کہ اپنے محبوب سے بار بار ملاقات کے وعدے وعید اور پھر ان سے انکار کا تذکرہ سنوں ۔

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں

معانی: کوئی دم کا مہماں : مراد فانی انسان ۔ اہلِ محفل: دنیا والے ۔ چراغ سحر: صبح سویرے کا چراغ جسے کسی وقت بجھایا جا سکتا ہے ۔
مطلب: اے دنیا والو! میں تو اب صرف چند گھڑیوں کا مہمان ہوں ۔ میری کیفیت تو صبح کے چراغ کی مانند ہے جو کسی لمحے بھی بجھ سکتا ہے ۔

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں

معانی: بے ادب: گستاخ ۔
مطلب: اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میں تو اس قدر منہ پھٹ واقع ہوا ہوں کہ جو باتیں دوسروں سے چھپا کر رکھنے کی ہوتی ہیں ان کو بھی بھری بزم میں منکشف کر دیا یقینا یہ عمل ایک جرم کے مترادف ہے ۔ مجھے اس کی سزا ملے تو بے شک میں یہ سزا بھگتنے کو ہر طرح سے تیار ہوں ۔


Transliteration

Tere Ishq Ki Intiha Chahta Hun
Meri Sadgi Dekh Kya Chahta Hun

Sitam Ho Ke Ho Wada-e-Be-Hijabi
Koi Baat Sabr Azma Chahta Hun

Ye Jannat Mubarik Rahe Zahidon Ko
Ke Mein Ap Ka Samna Chahta Hun

Zara Sa To Dil Hun Magar Shaukh Itna
Wohi Lan-Tarani Suna Chahta Hun

Koi Dam Ka Mehman Hun Ae Ahl-e-Mehfil
Charagh-e-Sehar Hun, Bujha Chahta Hun

Bhari Bazm Mein Raaz Ki Baat Keh Di
Bara Be-Adab Hun, Saza Chahta Hun

—————-

Completion of your Love is what I desire
Look at my sincerity what little I desire

It may be oppression or the promise of unveiling
Something testing my perseverance I desire

May the pious be happy with this Paradise
Only to see your Countenance I desire

Though I am but a tiny little heart I am so bold
To hear the same Lan tarani I desire

O assembly’s companions! I am existing only for a few moments
I am the dawn’s candle, I am about to be extinguished

I have divulged the secret in the full assembly
I am very insolent, punishment I desire

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button