ترا تن روح سے ناآشنا ہے
ترا تن رُوح سے نا آشنا ہے
عجب کیا آہ تیری نارسا ہے
تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے
معانی: تن: جسم ۔ نا آشنا: ناواقف ۔ نارسا: بے کار ۔
مطلب: اس رباعی میں بے عمل انسان سے خطاب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح روح کے بغیر جسم ایک تو وہ خاک کے مانند ہوا ہے ۔ یہی صورت ایک بے عمل شخص کی ہے حتیٰ کہ خدائے عزوجل جو رحیم و کریم ہے وہ بھی ایسے بے عمل اور بے روح لوگوں کی دعائیں نہیں سنتا اس لیے کہ فی الواقع وہ اس نوع کے افراد سے بیزار رہتا ہے ۔ اور وہ تو چونکہ خود زندہ ہے لہذا خدا بھی زندہ لوگوں کا خدا ہے ۔ زندہ لوگ وہی ہوتے ہیں جن کے جسم میں روح زندہ ہے اور اپنی بقاء کے لیے عملی جدوجہد کے قائل ہیں ۔
—————————-
Transliteration
Tera Tan Rooh Se Na-Ashna Hai
Ajab Kya! Aah Teri Na-Rasa Hai
Thy body knows not the secrets of thy heart,
And so thy sighs reach not the heights of heaven;
Tan-e-Be-Rooh Se Bezar Hai Haq
Khuda-e-Zinda, Zindon Ka Khuda Hai
God is disgusted with bodies without souls;
The living God is the God of living souls.
————————–