با ل جبر یل - منظو ما ت

جدائی

سورج بُنتا ہے تارِ زر سے
دنیا کے لیے ردائے نوری

معانی: بُنتا ہے: پروتا ہے ۔ تارِ زر: سونے کے تار ۔ ردائے نوری: نوری چادر ۔
مطلب: ہر چند کہ سورج اپنی زرتاب کرنوں سے پورے جہان کو روشنی سے معمور کرتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو تاریکی چھا جاتی ہے ۔

عالم ہے خموش و مست گویا
ہر شے کو نصیب ہے حضوری

معانی: عالم: دنیا ۔ نصیب ہے حضوری: اللہ کے سامنے حاضری ۔
مطلب: یہ صورت کائنات کی ہے جس میں موجود ہر شے اس طرح خاموش اور پرسکوت ہے جیسے اس کی منزل اور مقدر ہی یہی ہے ۔

دریا، کہسار، چاند تارے
کیا جانیں فراق و ناصبوری

معانی: کہسار: پہاڑ ۔ فراق: جدائی ۔ ناصبوری: بے صبری ۔
مطلب: اس عالم رنگ و بو میں جو دریا ، پہاڑ چاند اور ستارے موجود ہیں یہ اگرچہ اپنے اپنے مقام پر مصروف عمل ہیں تاہم انہیں ہجر و فراق کی کیفیتوں کا کوئی علم نہیں ۔

شایاں ہے مجھے غمِ جدائی
یہ خاک ہے محرمِ جدائی

معانی: شایاں : لائق ۔ محرم: دوست، واقف ۔
مطلب: البتہ یہاں ایک انسان کا وجود ہی ہے جسے ہجر اور جدائی کے غم اور کرب سے آگاہی نصیب ہے ۔ اس لیے کہ وہی ایک ایسی ہستی ہے جو عشق حقیقی رکھتی ہے اس لیے وہ ہجر و فراق کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ ہے ۔ ان اشعار میں اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کائنات میں جو سورج، چاند، ستارے ، پہاڑ اور دریا غرض یہاں موجود ہر شے اپنے اپنے مقام پر مصروف عمل تو ہے لیکن ان سب کو عشق حقیقی کا ادراک نہیں ۔

———————

Transliteration

Suraj Bunta Hai Tar-e-Zar Se
Dunya Ke Liye Rida-e-Noori

Alam Hai Khamosh-o-Mast Goya
Har Shay Ko Naseeb Hai Huzoori

Darya, Kuhsar, Chand, Tare
Kya Janain Faraaq-o-Nasaboori

Shayaan Hai Mujhe Gham-e-Judai
Ye Khak Hai Mehram-e-Judai

————————–

The sun is weaving with golden thread
A mantle of light about earthʹs head;

Creation hushed in ecstasy,
As in the presence of the Most High.

What can these know—stream, hill, moon, star—
Of separation’s torturing scar?

Mine is this golden grief alone,
To this dust only is this grief known.

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button