مستی کردار
صوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال
مُلا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
معانی: طریقت: مذہبی طریقہ ۔ مستیِ احوال: حال کی مستی ۔ شریعت: شرع کے اصول ۔ مستی گفتار: گفتگو کی مستی، بے اثر وعظ و نصیحت ۔
مطلب: علامہ کے دور کے پیشہ ور اور رسمی علمائے دین اور صوفیا کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تصوف کا باطنی علم محض مستی کیفیات کا اور شریعت صرف باتوں کی مستی کا نام رہ گیا ہے ۔ عمل کی مستی دونوں میں گم ہو چکی ہے ۔
شاعر کی نوا مُردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست! نہ خوابیدہ نہ بیدار
معانی: بے ذوق: بے شوق ۔ خوابیدہ: سویا ہوا ۔
مطلب: صوفیوں اور علما سے ہٹ کر اگر ادیبوں خصوصاً شاعروں کو دیکھیں تو ان کی شاعری مری ہوئی اور بجھی ہوئی ہے ۔ اس میں کوئی جوش، کوئی ولولہ ، کوئی صداقت اور سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے بلکہ اس سے الٹ قوم کو مردہ او ر افسردہ کرنے کی باتیں موجود ہیں ۔ آج کے نام نہاد شاعر اپنے فرضی خیالات میں مگن ہیں ۔ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ سوئے ہوؤں میں سے معلوم ہوتے ہیں اور نہ جاگے ہوؤں میں سے ۔ بس اپنے فرضی خیالات میں مست ہیں ۔ جن میں کوئی عملی بات اور پیغام نہیں ہے ۔
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیِ کردار
معانی: مستیِ کردار: کردار کی مستی یعنی باحوصلہ ، جنگجو اور مردِ میدان ۔
مطلب: تصوف ہو کہ شریعت، ادب ہو کہ فن، شعر ہو کہ ہنر مجھے اس دور میں کسی بھی میدان میں باطل کے خلاف جہاد کرنے والا کوئی شخص نظر نہیں آتا ، ایسا باطل سے ٹکرانے والا مرد جس کی رگ رگ میں صرف کردار کی مستی ہو دکھائی نہیں دیتا ۔