با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

شيخ صاحب بھي تو پردے کے کوئي حامي نہيں

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے

معانی: ملا، مذہبی پیشوا ۔ پردہ: عورتوں کا نقاب ۔ حامی: طرف دار ۔
مطلب: ایک عالم دین کی حیثیت سے اگرچہ شیخ صاحب آئے دن پردے کی حمایت میں تقریر کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں کالج کے طلبا انہیں قدامت پرست اور جدید اقدار کا دشمن سمجھتے ہوئے شیخ صاحب کے خلاف ہو گئے ۔

وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہو، جب مرد ہی زن ہو گئے

معانی: جب مرد ہی زن ہو گئے: آدمیوں نے عورتوں کے سے طور طریقے اختیار کر لیے ۔
مطلب: حالانکہ اس مخالفت کی ضرورت نہ تھی جب کہ کل انھوں نے اپنے ایک وعظ میں یہ بات صاف صاف کہہ دی تھی کہ اب پردے کی قطعاً ضرورت نہیں رہی اس لیے کہ بناوَ سنگھار کے ذریعے جب نوجوانوں نے ہی خواتین کی سی وضع قطع اختیار کر لی تو پردہ پھر کس سے کیا جائے ۔

——————

Transliteration

Shiekh Sahib Bhi To Parde Ke Koi Haami Nahin
Muft Mein Collge Ke Larke Un Se Badzan Ho Gye

Waaz Mein Farma Diya Kal Aap Ne Ye Saaf Saaf
“Parda Akhir Kis Se Ho Jab Mard Hi Zan Ho Gye”

——————-

The Sheikh also is not a supporter of women’s seclusion
The college boys unnecessarily suspicious of him became

He clearly stated in the sermon yesterday
“From whom would women be secluded if men women became”

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button