قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائی
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
معانی: خودی:خود معرفتی، خدائی:شاہی ، آقائی ۔ مرکز: دائرے کا درمیانی نقطہ ۔
مطلب: مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے لوگ رنگ، خون، نسل اور زبان و وطن کے اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ بلکہ مختلف ہیں ۔ اسلام اس نظریہ کے خلاف ہے اور وہ ہر رنگ ، نسل ، خون اور زبان کے لوگوں کو ایمان کے مرکزی نقطے پر جمع رکھتا ہے اور جملہ مسلمانان عالم کا مرکز حرم ہے ۔ جب ہم مرکز سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں تو ہم اپنی موت خریدتے ہیں اور اگر ہم مرکز سے بندھے ہیں تو پھر ہماری خود آگاہی کی قدر ہم سے خدائی صفات پیدا کر دے گی اور ہم کو دنیا اور دنیا والوں پر حکمران بنا دے گی ۔
جو فقر ہوا تلخیِ دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
معانی: فقر: درویشی ۔ تلخی دوراں : زمانے کا کڑوا پن یا سختی ۔ گلہ مند: شکوہ کرنے والا ۔ بوئے گدائی: گداگری کی بو، احتیاج کی بو ۔
مطلب: حقیقی درویشی چونکہ اللہ کی رضا پر سر تسلیم خم کئے ہوئے ہوتی ہے اس لیے وہ زمانے کی سختیوں کے کڑوا پن کا شکوہ نہیں کرتی اور اگر کہیں ایسا درویش یا ایسی درویش یا ایسی درویشی آپ پائیں جو اللہ پر بھروسے کی بجائے اور اس کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے زمانہ کی شکایت یا اس کا شکوہ کرے تو سمجھ لیں کہ ایسی درویشی درویشی نہیں ہے بلکہ گداگری ہے اور اپنے اندر احتیاج کی بو رکھتی ہے ۔
اس دور میں بھی مردِ خدا کو ہے میسر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی
معانی: معجزہ: اعجاز، کرامت ۔ پربت: پہاڑ ۔ رائی: رائی ایک فصل ہے جس کا دانہ بہت چھوٹا ہوتا ہے ۔ میسر ہے : حاصل ہے
مطلب: اگرچہ موجودہ دور درویشی کے لائق نہیں ہے اور اس میں اللہ کے وہ بندے جو فقیر ہیں نظر نہیں آتے لیکن اس زمانے میں بھی کوئی اللہ کا بندہ یا مرد فقیر ایسا مل سکتا ہے جس کو یہ قوت حاصل ہو کہ وہ اپنے اعجاز یا کرامت سے پہاڑ کو رائی بنا سکے یعنی بڑی سے بڑی مخالف قوت کو مٹی کا ڈھیر بنا سکے ۔ اس لیے کسی صاحب فقر کی تلاش اس زمانے میں بھی نہ چھوڑو ۔
درمعرکہ بے سوزِ تو ذوقے نتواں یافت
اے بندہَ مومن تو کجائی تو کجائی
معانی: درمعرکہ: جنگ یا تصادم میں ۔ بے سوز تو: تیرے سوز یا حرارت کے بغیر ۔ ذوقے: کسی قسم کی لذت ۔ نتواں یافت: حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ بندہ مومن: ایمان کی صحیح صفات رکھنے والا شخص ۔ کجائی: کہاں ہے ۔
مطلب: اس سے پہلے شعر میں علامہ نے چونکہ یہ اشارہ دیا ہے کہ اس ناموافق زمانے میں بھی کہیں کوئی مرد فقیر ایسا موجود ہو سکتا ہے جو اپنی روحانی اور نظری قوت سے انقلاب برپا کر دے اس لیے اس شعر میں انھوں نے ایسے ہی مرد کے متعلق جو مومن اور فقیری کی صفات کا مالک ہو ، آرزو کی ہے اور اسے پکار کہ تو کہاں ہے ۔ تو کہاں ہے کہیں سے آ جا کیونکہ زندگی کے حالاتی تصادم میں تیرے یا تیری صحبت کے بغیر لذت حاصل نہیں ہو سکتی ۔
خورشید! سراپردہَ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوسِ حنائی
معانی: خورشید: سورج ۔ سراپردہَ مشرق: مشرق کے گھر کے پردے سے ۔ کہسار: پہاڑوں کا سلسلہ ۔ ملبوس حنائی مہندی کے رنگ کا لباس یا سرخی مائل لباس ۔
مطلب: اس شعر میں بھی محراب گل نے اس مرد فقیر کے سامنے آ جانے کی بات کی ہے جس کی صفات کا ذکر اوپر کے دو تین شعروں میں ہوا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح مشرق کے گھر کے پردے سے سورج طلوع ہو کر میرے علاقے کے پہاڑی سلسلے کو اپنی صبح کی دھوپ سے مہندی کے رنگ جیسا لباس پہنا دیتا ہے اسی طرح اے مرد فقیر تو بھی کہیں سے آ اور میرے پہاڑوں اور وادیوں اور ان کے رہنے والوں میں زندگی اور ایمان کی روح پھونک دے ۔