پريشاں ہوکے ميری خاک آخر دل نہ بن جائے
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
معانی: پریشاں : بکھر کر ۔ خاک: مٹی ۔
مطلب: اس غزل کا بنیادی موضوع عشق ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ موت کے بعد میری خاک کے منتشر ذرات اگر یکجا ہو کر دل کی صورت اختیار نہ کر لیں تو پھر میں اسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤں گا جو عشق کی صورت میں زندگی کے دور میں مجھ پر مسلط تھی ۔ مطلب یہ کہ زندگی میں جس عشق میں گرفتار رہا ایسا نہ ہو کہ موت کے بعد بھی اسی صورت حال سے دوچار ہو جاؤں ۔
نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نوا فردوس میں حوریں
مرا سوزِ دروں پھر گرمیِ محفل نہ بن جائے
معانی: مجبور نوا: بولنے پر مجبور ۔ فردوس: جنت ۔ حوریں : جنت کی حسینائیں ۔ سوزِ دروں : اندرونی جلن ۔
مطلب: اگر بہشت میں بھی پہنچ گیا تو وہاں موجود حوریں مجھے اظہار عشق کی اس کیفیت پر مجبور نہ کر دیں جس کے سبب میری زندگی میں فتور برپا رہا ۔
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے
معانی: منزل: مقام ۔ راہی: مسافر ۔ کھٹک: چبھن ۔
مطلب: منزل تک رسائی میں ناکامی کا جو دکھ ہوتا ہے وہ مسافر کے لیے ایک مستقل خلش بن جاتا ہے اور منزل تک پہنچنے کے لیے جدوجہد میں حائل ہو جاتا ہے ۔ اقبال اس صورت حال کو اپنے فکر کی نفی تصور کرتے ہیں ۔
بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
معانی: ناپیداں کراں : جس کا کنارا نہ ہو ۔ خود نگہداری: خودداری، خود شناسی ۔
مطلب: جذبہ عشق نے مجھے ہر چند کہ ایسی وسعت عطا کر دی ہے جو ایک بیکراں سمندر کی سی ہے اب خدشہ یہ ہے کہ یہی تصور ایک ایسے ساحل کی حیثیت اختیار نہ کر دے جو میرے عمل ارتقاء کی جدوجہد میں سنگ راہ بن جائے ۔
کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری
وہی افسانہَ دنبالہَ محمل نہ بن جائے
معانی: بے رنگ و بو: بے مزا ۔ طلب: ضرورت ۔ دنبالہ: پچھلا حصہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے لیلیٰ اور مجنوں کے معاشقے کی روایتی داستان کے حوالے سے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ میں اس عالم رنگ و بو میں بھی جنون عشق میں مبتلا ہو کر مذکورہ داستان کی تمثیل نہ بن جاؤں ۔ یعنی زندگی بھر تو محبوب کی طلب ناکامی کا مظہر رہی اور اگر بعد از مرگ دوسری دنیا میں بھی ایسا ہوا تو انتہائی کرب انگیز ہو گا ۔
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
معانی: عروج آدم: آدمی کی بلندی ۔ انجم: ستارے ۔ ٹوٹا ہوا تارا: آسمان سے اترا ہوا آدمی ۔ مہہ کامل: پورا چاند ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے ستاروں اور مہ کامل کی علامتوں کے حوالے سے اپنے عہد میں انسان کے ارتقاء کا ذکر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ایک عام انسان کی جدوجہد کے سبب اسے جو عروج حاصل ہو رہا ہے اس نے معاشرے میں موجود اشرافیہ کو خوفزدہ کرکے رکھ دیا ہے کہ اس نے اپنی جدوجہد کے ساتھ کامیابی کی منزل تک رسائی حاصل کر لی تو ان کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی ۔
——————————-
Translation
Preshan Ho Ke Meri Khaak Akhir Dil Na Ban Jaye
Jo Mushkil Ab Hai Ya Rab Phir Wohi Mushkil Na Ban Jaye
Na Kar Dain Mujh Ko Majboor-e-Nawa Firdous Mein Hoorain
Mera Souz-e-Daroon Phir Garmi-e-Mehfil Na Ban Jaye
Kabhi Chhori Huwi Manzil Bhi Yaad Ati Hai Raahi Ko
Khatak Si Hai, Jo Sinay Mein, Gham-e-Manzil Na Ban Jaye
Banaya Ishq Ne Darya’ay Na-Payda Karan Mujh Ko
Ye Meri Khud Nigahdari Mera Sahil Na Ban Jaye
Kahin Iss Alam-e-Be-Rang-o-Bu Mein Bhi Talab Meri
Wohi Afsana-e-Dunbala-e-Mehmil Na Ban Jaye
Urooj-e-Adam-e-Khaki Se Anjum Sehme Jate Hain
Ke Ye Toota Hua Tara Mah-e-Kamil Na Ban Jaye
———————-
My scattered dust charged with Love the shape of heart may take at last:
O God, the grief that bowed me then may press me down as in the past!
The Maids of Eden by their charm may arouse my urge for song:
The flame of Love that burns in me, May fire the zeal of Celestial Throng!
The pilgrim’s mind can dwell at times on spots and stages left behind:
My heed for spots and places crossed, From the Quest may turn my mind!
By the mighty force of Love I am turned to Boundless Deep:
I fear that my self‐regard, Me, for aye, on shore may keep!
My hectic search for aim and end, In life that smell and hue doth lack,
May get renown like lover’s tale, Who riding went on litter’s track!
They dread that this fallen star to moon may wax with fuller light.