پھر باد بہار آئي ، اقبال غزل خواں ہو
پھر بادِ بہار آئی، اقبال غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گلستاں ہو
معانی: غزل خواں : غزل پڑھنے والا، شعر کہنے والا ۔ برہم ہو: بکھر جا ۔
مطلب: اقبال خود سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ آمد موسم بہار کے ساتھ مست و سرشار ہوائیں چلنے لگی ہیں لہذا تجھ پر غزلخوانی لازم ٹھہرتی ہے ۔ اگر تو غنچہ ہے تو پھول بن جا اور پھول ہے تو گلستان میں تبدیل ہو جا ۔ مراد یہ کہ موسم بہار کی رنگ آمیز فضا میں اپنے وجود کو بھی عمل ارتقاَ سے ہم آہنگ کر لینا چاہیے ۔
تو خاک کی مٹھی ہے، اجزا کی حرارت سے
برہم ہو، پریشاں ہو، وسعت میں بیاباں ہو
معانی: برہم ہو: بکھر جا ۔ پریشاں ہو: پھیل جا ۔ جنس: سودا ۔
مطلب: ہر چند کہ تو مشت خاک کی مانند ہے اس کے باوجود جملہ عناصر کی حرارت کا منبع ہے اور اگر یہ عناصر منتشر ہو جائیں تو صحرا جیسی وسعت اختیار کر سکتے ہیں ۔ مراد یہ کہ جبر کی فضا میں بھی انسان اختیار کا اہل ہوتا ہے ۔
تو جنسِ محبت ہے، قیمت ہے گراں تیری
کم مایہ ہیں سوداگر، اس دیس میں ارزاں ہو
معانی: گراں : بھاری، زیادہ ۔ کم مایہ: تھوڑی پونجی والا، والے ۔ سوداگر: تاجر، سودا خریدنے، بیچنے والا ۔ ارزاں : سستا ۔
مطلب: اے اقبال! تیرا وجود تو جنس محبت کا ہم پلہ ہے ۔ اس اعتبار سے تیری ذات انتہائی گراں قیمت رکھتی ہے ۔ لیکن تو جس سرزمین کا باشندہ ہے وہاں تو خریداری کرنے والے سوداگر ہی بہت کم مایہ اور بے وسیلہ ہیں جو تجھے موجودہ قیمت میں خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے لہذا اگر تجھے ان کا پاس ہے تو خود کو ارزاں کر لے اس صورت میں شاید وہ تیرے خریدار بن سکیں ۔
کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لَے تیری
تو نغمہَ رنگیں ہے، ہر گوش پہ عریاں ہو
معانی: مستور: چھپی ہوئی ۔ لے: سر ۔ نغمہَ رنگیں : یعنی دل کش شعر کہنے والا ۔ گوش: کان، مراد سننے والے ۔ عریاں : ظاہر، یعنی جسے سب سنیں اور سمجھیں ۔
مطلب: تیری آواز آخر کار کسی ساز کے پردے میں کس لیے پوشیدہ رہے کہ تو تو ایسا رنگیں نغمہ ہے جس کی رسائی ہر فرد کے کانوں تک ہونی چاہیے ۔
اے رہروِ فرزانہ، رستے میں اگر تیرے
گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو
معانی: فرزانہ: دانا، عقل مند ۔
مطلب: بے شک تو ایک دانشمند مسافر کی طرح ہے کہ جس کے دوران سفر راہ میں کوئی باغ ہو جائے تو تو اس کے لیے شبنم بن جائے اور اگر صحرا آ جائے تو طوفان کا روپ دھار لے ۔
ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی
مقصد ہے اگر منزل غارت گرِ ساماں ہو
معانی: مضمر: چھپا ہوا ۔ تن آسانی: آرام طلبی ۔ غارت گر: تباہ کرنے والا، مراد دلچسپی نہ لینے والا ۔
مطلب: اے اقبال اگر تو مسافرت کے دوران سازوسامان کا آرزومند ہے تو یہ رویہ تن آسانی کے مصداق ٹھہرتا ہے اور اگر مقصد حصول منزل ہو تو پھر کسی طرح کے زاد راہ کی ضرورت نہیں بلکہ اگر سفر کا کوئی سامان تیرے پاس موجود ہے تو اسے اٹھا کر پھینک دے کہ باہمت لوگوں کو منزل مقصود تک رسائی کے لیے کسی سامان کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اگر اس کے پاس کوئی مددگار شے بھی ہے تو وہ ہمت ، جرات اور بلند حوصلگی ہوتی ہے ۔
————————-
Transition
Phir Bad-e-Bahar Ayi, Iqbal Ghazal Khawan Ho
Ghuncha Hai Agar Gul Ho, Gul Hai To Gulistan Ho
Tu Khak Ki Muthi Hai, Ajza Ki Hararat Se
Barham Ho, Preshan Ho, Wusa’at Mein Byanban Ho
Tu Jins-e-Mohabbat Hai, Qeemat Hai Garan Teri
Kam-Maya Hain Soudagar, Iss Daes Mein Arzan Ho
Kyun Saaz Ke Parde Mein Mastoor Ho Lay Teri
Tu Naghma’ay Rangeen Hai, Har Gosh Pe Uryan Ho
Ae Rehro-e-Farzana! Raste Mein Agar Tere
Gulshan Hai To Shabnam Ho, Sehra Hai To Toofan Ho
Saman Ki Mohabbat Mein Muzmar Hai Tan Asani
Maqsad Hai Agar Manzil, Gharat Gar-e-Saman Ho
Translation
The spring breeze is flowing again start singing, O Iqbal
If you are a bud be the flower, if a flower the garden become
You are a handful of dust, with the warmth of the components
Wander around, scatter about and wilderness in extent become
You belong to the essence of Love, you are invaluable
The purchasers are indigent, low priced in this country become
Why should your tunes be veiled in the guitar’s frets?
You are an ornamented song, evident to every ear become
O wise traveler! If in your path you encounter
The garden become dew, if wilderness the storm become
Indulgence is concealed in the love of opulence
If you aim at the destination, destroyer of opulence become