Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Nikal Kr Khanqahoon Say Ada Ker Rassem e Shabbiri
ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاضعلامہ اقبال شاعری

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيري

n

(Armaghan-e-Hijaz-28)

Nikal Kar Khanqahon Se Ada Kar Rasm-e-Shabiri

(نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری)

Come out of the monastery and play the role of Shabbir

نکل کر خانقاہوں سے اَدا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

معانی: خانقاہ: درویشوں کے رہنے کی جگہ جہاں لوگوں کی روحانی تربیت کی جاتی ہے ۔ شبیر: حضرت محمد مصطفیﷺ کے چھوٹے نواسے کا نام حضرت امام حسین ۔ رسم شبیری: جو رسم حضرت امام حسین نے کربلا میں ادا کی اور باطل کے مقابلے میں ڈٹ گئے ۔ فقر خانقاہی: خانقاہ تک محدود فقیری، جو عملی دنیا سے بے گانہ ہو ۔ اندوہ: رنگ ، ملال ۔ دلگیری: صدمہ، دل پر صدمہ اور رنج کی کیفیت ۔ فقط: صرف ۔
مطلب: علامہ عہد حاضر کے ان فقیروں ، درویشوں اور صوفیوں کو جنھوں نے اپنے آپ کو اپنی خانقاہوں تک محدود کر رکھا ہے اور عملی دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھتے کہا ہے کہ تمہاری یہ خانقاہی زندگی رہبانیت کے برابر ہے ۔ تم اپنی خانقاہوں سے نکلو اور عملی میدان میں آ کر امت مسلمہ کے مسائل کا حل تلاش کرو ۔ ان کو غلامی کی زنجیریں کاٹنے کا مشورہ بھی دو اور اسکے کاٹنے میں ان کی مدد بھی کرو ۔ ان کو جابر طاقتوں کے سامنے سرا ٹھانے کے لیے بھی کہو اور خود بھی اس عمل میں حصہ لو ۔ جس طرح حضرت امام حسین نے اپنے وقت کے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا تھا اور حق کی سربلندی کے لیے کربلا کے میدان میں اپنی، اپنے رفقائے کار اور اہل خاندان کی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر وقت کے طاغوتی اور جابر قوتوں کے خلاف محاذ قائم کرو چاہے اس میں جانیں بھی قربان کیوں نہ کرنی پڑیں ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے اور خود کو خانقاہی رسوم اور عبادات کے ادا کرنے تک ہی محدود رکھو گے تو یاد رکھو تمہاری یہ زندگی رنج و ملال اور صدمہ و غم کی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہو گی ۔ یہ رہبانیت کی زندگی ہو گی جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔

———————

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری

معانی: بوئے رہبانی: ترک دینا کی بو ۔ رہبانی: ترک دنیا ۔ امت: قوم ۔ عالم پیری: بڑھاپے کی حالت، اخیر عمر کا زمانہ ۔
مطلب: اے وہ صوفی جس نے خود کو عملی دنیا سے بے گانہ کر رکھا ہے تو جو مذہبی خیالات اور ادبی افکار پیش کر رہا ہے مجھے اس میں سے ترک دنیا اور بے عملی کی بو آ رہی ہے ۔ جب کسی قوم کی موت آئی ہوئی ہوتی ہے تو اس کا اور اس کے بزرگوں کا یہی حال ہوتا ہے جس طرح کسی شخص پر بڑھاپا آ جاتا ہے ۔ اور اس کی یہ اخیر عمر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب وہ مرنے والا ہے اسی طرح اے صوفی تیری بے عملی اور ترک دنیا سکھانے والی زندگی اور خیالات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ تو اور تیری قوم بھی مرنے کے قریب ہے ۔ خانقاہ کی محدود اور بے عمل زندگی کو چھوڑ کر خود بھی مرنے سے بچ اور اپنی قوم کو بھی مرنے سے بچا ۔ یہاں مرنے سے مراد بے حس ہونا، عمل سے بیگانہ ہونا، غلام بن کر زندگی بسر کرنا اور جبر و جور کی قوتوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا وغیرہ سے ہے

———————

شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری

معانی: شیاطین: شیطان کی جمع ۔ ملوکیت: بادشاہت، آقائیت ۔ نخچیر: شکار ۔ ذوق نخچیری: شکار ہو جانے کی لذت ۔
مطلب: ملوکیت کا نظام دنیا میں شیطان کا پیدا کردہ ہے اس نظام میں بادشاہ اور اسکو تقویت بخشنے اور خود کو اس کے سایہ میں محفوظ سمجھنے والی جاگیری، زمنیداری، وڈیرہ پن اور سرمایہ داری کی قوتیں سرگرم عمل ہو کر لوگوں کو اپنا محتاج، دست نگر اور غلام بنا لیتی ہیں ۔ یہ طبقے لوگوں کو اپنی غلامی پر رضامند اور خوش رکھنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانوں اور مکر و فریب سے کام لیتے ہیں اور ان کی عزت و ناموس اور خودداری و خودگیری کی صلاحیتوں اور قوتوں کو اس اندازے سے سلا دیتے ہیں کہ وہ اس میں خوش نظر آتے ہیں ۔ علامہ نے اس کیفیت کو شکار اور شکاری کی علامتوں سے سمجھایا ہے اور بتایا ہے کہ ان شکاریوں کے پاس کچھ ایسا جادو ہوتا ہے کہ شکار خود شکار ہونے کے لیے تیار رہتا ہے اور اپنے شکار ہونے میں لذت محسوس کرتا ہے ۔

———————

چہ بے پروا گزشتند از نوائے صبح گاہِ من
کہ برد آں شور و مستی از سیہَ چشمان کشمیری

مطلب: ملا زادہ ضیغم لولابی افسوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان سیاہ آنکھوں والے کشمیریوں سے وہ دینی اور قومی جذبہ کون لے گیا کہ وہ میری صبح کی فریاد کو نظر انداز کر گئے اور کوئی پرواہ نہ کی ۔ یعنی میری صبح کے وقت کی آواز سے اہل کشمیر اس طرح بے پروا ہو کر گزرے ہیں کہ جیسے ان کی سیہ آنکھوں سے کوئی وہ شور و مستی لے گیا ہو جس سے وہ دوسروں پر جادو کر سکتے تھے ۔ مراد یہ ہے کہ یہی کشمیری جو آج غلامی اور بے بسی کی زندگی بسر کر رہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کبھی آزاد تھے اور زندگی کے ہر شعبے میں نہ صرف سرفراز تھے بلکہ دوسرے بھی ان سے استفادہ کرتے تھے ۔

———————

Translitation

Nikl Kar Khanqahon Se Ada Kar Rasm-E-Shabeeri
Ke Faqr-E-Khanqahi Hai Faqat Andoh-O-Dilgeeri

Come out of the monastery and play the role of Shabbir,
for monastery’s faqr is but grief and affliction.

Tere Deen-O-Adab Se Aa Rahi Hai Boo’ay Ruhbani
Ye Hai Marne Wali Ummaton Ka Alam-E-Peeri

Thy religion and literature both smell of renunciation:
symbol of old age of dying nations.

Shayateen-E-Mulookiat Ki Ankhon Mein Hai Vo Jadoo
K Khud Nakhcheer Ke Dil Mein Ho Paida Zuaq-E-Nakhcheeri

Imperialism has myriads of Satans with eyes full of magic charms
that evoke among the prey an irresistible urge to be its victim.

Che Be Parwa Gazashtand Az Nawa’ay Subahgah-E-Mann
Ke Burd Aan Shor-O-Masti Az Seeh Chasmaan-E-Kashmiri !

How carelessly they passed by, with no ear to my lamentations,
The Kashmiri’s black eyes, so lacking in lustre and life, who made them so dead and mute?

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button