بال جبریل (حصہ دوم)

نے مہرہ باقی ، نے مہرہ بازی


نے مہرہ باقی ، نے مہرہ بازی
جيتا ہے رومی ، ہارا ہے رازی
روشن ہے جام جمشيد اب تک
شاہی نہيں ہے بے شيشہ بازی
دل ہے مسلماں ميرا نہ تيرا
تو بھی نمازی ، ميں بھی نمازی!
ميں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے ميں ملا ہوں غازی
ترکی بھی شيريں ، تازی بھی شيريں
حرف محبت ترکی نہ تازی
آزر کا پيشہ خارا تراشی
کار خليلاں خارا گدازی
تو زندگی ہے ، پائندگی ہے
باقی ہے جو کچھ ، سب خاک بازی

—————–

Translation

Ne Muhra Baqi, Ne Muhra Bazi
Jeeta Hai Rumi, Haara Hai Razi

Roshan Hai Jaam-e-Jamshaid Ab Tak
Shahi Nahin Hai Be Sheesha Bazi

Dil Hai Musalman Mera Na Tera
Tu Bhi Namazi, Mein Bhi Namazi!

Mein Janta Hun Anjaam Uss Ka
Jis Maarke Mein Mullah Hon Ghazi

Turki Bhi Sheerin, Tazi Bhi Sheerin
Harf-e-Mohabbat Turki Na Tazi

Aazar Ka Paisha Khara Tarashi
Kaar-e-Khaleelan Khara Gudazi

Tu Zindagi Hai, Paendagi Hai
Baqi Hai Jo Kuch, Sub Khaak Bazi

————————————–

Over the tussle of heart and head
Rumi has won and Rizi fled.

Still bowl of Jamshid is alive,
Without guile kingship cannot thrive.

Both you and I aren’t Muslims true,
Though we say the prayers due.

I know the end of wrangle well
Where mullahs at each other yell.

Turkish and Arabic both are sweet,
For talk of Love all tongues are meet.

The breed of Azar idols make,
But Friends of God these idols break.

You are alive and live for aye
The rest is all a play with clay.

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button