بال جبریل (حصہ دوم)علامہ اقبال شاعری

نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے

 

نہ تو ز میں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

مطلب: انسان اشرف المخلوقات ہے اس کے لیے باری تعالیٰ نے دونوں جہانوں کو پیدا کیا ہے ۔ ابلیس نے حکم خداوندی کے تحت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اسے راندہ درگاہ کر دیا گیا ۔ اقبال کا یہ شعر کم وبیش اسی مفہوم کا آئینہ دار ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اے انسان تو نہ ز میں کے لیے ہے نا ہی آسمان کے لیے اس کے برعکس یہ جہان تیرے لیے ہے تو جہاں کے لیے نہیں ہے ۔ مراد یہ ہے کہ قدرت نے انسان کو ہر شے سے افضل قرار دیا ہے عملاً دنیا کی ہر شے انسان ہی کے تابع ہے وہ دنیا کا تابع نہیں ہو سکتا کہ یہ صورت اس کے لیے انتہائی پستی کی حامل ہے ۔ اس نے تو اپنی صلاحیتوں سے پوری کائنات کو تسخیر کرنا ہے ۔

یہ عقل و دل ہیں شرر شعلہَ محبت کے
وہ خار و خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے

معانی: نیستاں : بانس کا جنگل ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ عقل اور دل ایک ہی جذبے کے مظہر ہیں لیکن عقل کا دائرہ کار محدود ہے جب کہ دل کا تعلق لامتناہی سلسلے سے ہے ۔ شعر کے مطابق عقل اور دل ایک طرح سے محبت کے شعلے کی چنگاریوں کے مانند ہیں لیکن عقل اگر چنگاری کے مانند ہے تو وہ گھاس پھونس کے ڈھیر کو آگ لگا سکتی ہے جب کہ دل کی چنگاریاں تو لامحدود جنگل کو بھسم کرنے کی صلاحیت کی حامل ہیں ۔

مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیرِ گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

مطلب: یہ کائنات تو آہ و فریاد سے لبریز ہے ایسی صورت میں نہ تو یہاں سیر گل کا تصور کیا جا سکتا ہے نا ہی مستقل رہائش گاہ کا ۔ مراد یہ ہے کہ انسان علائق دنیوی میں مست ہو کر عشق حقیقی سے بے پرواہ ہو جائے تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہے ۔ اصل شے تو عشق حقیقی ہے جو منزل تک رسائی کے لیے ناگزیر ہے ۔

رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لیے

معانی: سفینہ: کشتی ۔ بحرِ بیکراں : کھلا سمندر جس کا کنارہ نظر نہ آئے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے فرد کی ذمہ داریوں کو وسیع تر مفاد کے پیش نظر اس امر کی رہنمائی کی ہے کہ چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھ کر زندگی کے بنیادی مقاصد سے روگردانی کرنا دانشمندی نہیں ۔ حقیقی مسئلہ تو منزل تک پہنچنے کا ہے ۔

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے

مطلب: وہ لوگ جو ساری دنیا کی رہنمائی کے اہل تھے افسوسناک امر یہ ہے کہ آج خود کسی ایسے رہبر کے منتظر ہیں جو انھیں منزل تک پہنچا دے ۔

نگہ بلند سُخن دل نواز ، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

مطلب: یہ شعر بھی اس سے قبل کے شعر کا تسلسل ہے جس میں حقیقی رہنما کی صفات کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اقبال کے نزدیک حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو مسائل پر گہری نظر رکھتا ہو ، گفتگو دل میں اتر جانے والی ہو اور دل سوز و گداز سے بھرپور ہو ۔

ذرا سی بات تھی اندیشہَ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے

مطلب: یہ شعر بھی ایک طرح سے گذشتہ دو شعروں کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہی وہ نکات تھے جنہیں اہل عجم نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ اہل دانش کے لیے تو یہ سیدھی سادی سی باتیں ہیں ۔

مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے

مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں اقبال نے کہا ہے کہ میری آواز میں تو ایک ایسی لے مستور جسے میں نے مستقبل کے لیے محفوظ کر رکھا ہے ۔ اس لے میں ایسی خصوصیت ہے جو پیغمبر آخر الزماں کے لیے وحی لے کر آنے والا فرشتہ جبرئیل بھی سن کر تڑپ اٹھے ۔ مراد یہ ہے کہ شاعر کے سخن میں کمال موجود ہو تو وہ فرشتوں کو بھی تڑپا کر رکھ دیتا ہے

———————–

Translation

Na Tu Zameen Ke Liye Hai Na Asman Ke Liye
Jahan Hai Tere Liye, Tu Nahin Jahan Ke Liye

Ye Aqal-o-Dil Hain Sharar Shola-e-Mohabbat Ke
Woh Khaar-o-Khs Ke Liye Hai, Ye Neetan Ke Liye

Maqam-e-Parwarish-e-Aah-o-Nala Hai Ye Chaman
Na Sair-e-Gul Ke Liye Hai Na Ashiyan Ke Liye

Rahe Ga Ravi-o-Neel-o-Firat Mein Kab Tak
Tera Safina Ke Hai Behar-e-Bekaran Ke Liye!

Nishan-e-Rah Dikhate The Jo Sitaron Ko
Taras Gye Hain Kisi Mard-e-Rah Daan Ke Liye

Nigah Buland, Sukhan Dil Nawaz, Jaan Pursouz
Yehi Hai Rakht-e-Safar Mir-e-Karwan Ke Liye

Zara Si Baat Thi, Andaisha-e-Ajam Ne Isse
Barha Diya Hai Faqat Zaib-e-Dastan Ke Liye

Mere Gulu Mein Hai Ek Naghma Jibreel Ashob
Sanbhal Kar Jise Rakha Hai La-Makan Ke Liye

————————-

You are neither for the earth nor for the heaven:
The world is for you, and not you for the world.

The sparks Reason and Heart are shed of the flame of Love:
That one to burn the straw, this one for burning the field of reeds.

This garden is for painful strains:
Neither for enjoying the roses nor for making a nest.

How long, while your ship remains in Ravi, Nile and Euphrates?
—When it is meant for the Ocean, which knows no bounds.

Once who were beacons to the brightest stars,
Have long been awaiting a guide to show them the way now.

High ambition, winsome speech, a passionate soul—
This is all the luggage for a leader of the Caravan.

It was a plain and simple truth but the imagination of the Persian mind
Has confounded it with the poetic license.

I am saving a song for the Place-less Realm—
A song that could shake even the trusty Gabriel.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button