نہ آتے ، ہميں اس ميں تکرار کيا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
معانی: تکرار: جھگڑا ۔ عار: شرم ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں محبوب کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ میری دعوت پر بے شک تو نہ آتا نہ ہی ہمیں اس پر کسی بحث و تمحیص کی ضرورت تھی تاہم دل رکھنے کے لیے محض وعدہ ہی کر لیتا تو اس میں کیا قباحت ہوتی ۔
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
معانی: پیامی: پیغام لانے لے جانے والا ۔ راز کھولنا: بھید کی بات بتا دینا ۔ بندہ: غلام، اپنے لیے عاجزی کا لفظ ۔ سرکار: آقا، محبوب کے لیے ادب کا لفظ ۔
مطلب: اس شعر میں اپنے محبوب سے عاشق کہتا ہے کہ میں نے تو تمام معاملات عشق کو دوسروں سے پوشیدہ رکھا تھا اگر اس راز پر سے پردہ اٹھا تو اس کا ذمہ دار تیرا قاصد ہے اس ضمن میں مجھے کسی طرح بھی خطاکار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
معانی: بھری بزم میں : مراد سب حاضرین کے سامنے ۔ تاڑنا: بھانپ، جان لینا ۔ مستی: نشہ، مدہوشی ۔ ہشیار: ہوش میں رہنے والی ۔
مطلب: اے محبوب! تو نے تو بھری محفل میں سب کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف اپنے عاشق کو ہی تاڑ لیا ۔ بے شک تیری آنکھیں مستی اور سرشاری کے باوجود بہت ہوشیار ثابت ہوئیں ۔ عاشق کو تاڑنے کا عمل اس حقیقت کا مظہر ہے ۔
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی
معانی: تامل: سوچ ۔ طرز: طریقہ، انداز ۔
مطلب: اس شعر میں عاشق اپنے محبوب کے پاس جانے والے قاصد سے استفسار کرتا ہے بے شک تیرے کہنے کے مطابق اس نے میری دعوت کے بارے میں تامل سے تو کام لیا مگر اتنا ضرور بتا دے کہ اس کے انکار کا انداز کیا تھا ۔ تا کہ حقیقت حال کا اندازہ کیا جا سکے ۔
کھنچے خود بخود جانبِ طور موسیٰ
کشش تیری اے شوقِ دیدار کیا تھی
معانی: کھنچے: کشش کے سبب آگے بڑھے ۔ جانب: طرف ۔ طور: طورِ سینا، جہاں حضرت موسیٰ نے خدا کا جلوہ دیکھا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خداوند تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ جانے کس جذبے کے تحت کوہ طور کی جانب کھنچے چلے گئے ۔ شاید یہ تیرا جلوہ دیکھنے کی کشش ہی تھی کہ انجام و عواقب سے بے نیاز ہو کر برق طور کی پروا بھی نہ کی ۔
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی، تیری گفتار کیا تھی
معانی: ذکر رہنا: کسی کے متعلق باتیں ہونا ۔ فسوں : جادو ۔ گفتار: باتیں ، مراد شاعری ۔
مطلب: اے اقبال! اتنا بتا دے کہ تیری گفتگو میں کونسا سحر پوشیدہ تھا کہ محبوب کی بزم میں اب ہر لمحے تیرا ذکر خیر ہوتا رہتا ہے ۔
Magar Wada Karte Huwe Aar Kya Thi
Tumhare Payami Ne Sub Raaz Khola
Khata Iss Mein Bande Ki Sarkar Kya Thi
Bhari Bazm Mein Apne Ashiq Ko Tara
Teri Ankh Masti Mein Hushyar Kya Thi!
Y
Tammal To Tha Un Ko Ane Mein Qasid
Magar Ye Bata Tarz-e-Inkar Kya Thi
Kashish Teri Ae Shauq-e-Didar Kya Thi !
Kahin Zikr Rehta Hai Iqbal Tera
Fasoon Tha Koi, Teri Guftar Kya Thi
—————
Translation
If you had not come I would have had no occasion for contention
But what reluctance in making the promise was?
Your messenger disclosed every secret
O Lord! What fault of Man in this was?
You recognized Your Lover in the full assembly
How alert Your eye in the middle of the ecstasy was!
True! Reluctant he was to come, O messenger
But tell me what the manner of denial was
Musa was effortlessly attracted to Tur
How strong, O Zeal your attraction was!
Some magic, not your speech it was