ستارےکاپيغام
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان پر جو ستارہ چمک رہا ہے وہ انسان کو کچھ اس طرح کا پیغام دیتا ہے کہ میری فطرت میں چونکہ پاکیزگی اور تابندگی موجود ہے اس لیے اگر فضا پر تاریکی کا تسلط ہو جائے پھر بھی میں اس سے خوفزدہ نہیں ہو سکتا اس لیے کہ میں تو خود اس نوع کی تاریکی کا سینہ چیر کر فضا کو منور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔ اسی حوالے سے ستارہِ شب کو سفر کرنے والے مسافر سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ اگر تجھے اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے تو میری طرح اپنی ذات میں وہ صلاحیت پیدا کر جو کسی دوسرے کے سہارے کے بغیر تیرے لیے روشن چراغ کی طرح رہنمائی کا سبب بن سکے اور اس کے لیے یہ امر بھی ضروری ہے کہ تیرے جگر کا داغ شمع کے مانند تیری تاریک رات کو روشن کردے ۔ مراد یہ ہے کہ عشق حقیقی بھی ایک روشن ستارے کے مانند ہے جو ماحول کو خواہ وہ کتنا بھی تیرہ و تا ر ہو تابناک بنا سکتا ہے ۔
———————-
Transliteration
Sitare Ka Pegham
Mujhe Dra Nahin Sakti Faza Ki Tareeki
Meri Sarisht Mein Hai Paki-o-Durkhashani
Tu Ae Musafir-e-Shab! Khud Charagh Ban Apna
Kar Apni Raat Ko Dagh-e-Jigar Se Noorani
—————————–
The Star’s Message
I fear not the darkness of the night;
My nature is bred in purity and light;
Wayfarer of the night! Be a lamp to thyself;
With thy passion’s flame, make thy darkness bright