Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Mjhko Maloom Hain Peeran e Harrm Kay Andaaz
تعلیم و تربیتعلامہ اقبال شاعری

دين و تعليم

مجھ کو معلوم ہیں پیرانِ حرم کے انداز
ہو نہ اخلاص تو دعوائے نظر لاف و گزاف

معانی: پیرانِ حرم: کعبے کے پیر یعنی دین کے علما ۔ انداز: طریقے ۔ اخلاص: خلوص ۔ دعویٰ نظر: یہ دعویٰ کرنا کہ میں نظر رکھتا ہوں ۔ لاف و گراف: فضول باتیں ، شیخی اور گپ شپ کی باتیں ۔
مطلب: موجودہ دور کے پیشہ ور اور دین فروش علمائے دین کے متعلق علامہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کی زندگی اور ان کے کردار کے طور طریقے دیکھے ہیں یوں تو وہ اپنے خلوص کا اور معاملات پر صحیح نظر رکھنے کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ دعویٰ فضول اور شیخی کی باتوں کے سوا کچھ نہیں اور یہ ان کے عمل اور کردار سے صاف ظاہر ہے ۔

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مرّوت کے خلاف

معانی: اہل کلیسا: کلیسا والے یعنی عیسائی، مراد یہاں مغربی اقوام جو عیسائی مذہب رکھتی ہیں ۔ دین :اسلام ۔ مروت: حسن اخلاق ۔
مطلب: مغرب والوں نے جن کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے مدرسوں میں ایسا تعلیمی نظام راءج کیا ہے اور ایسی کتابیں نصاب میں داخل کی ہیں کہ جن کو پڑھ کر مسلمان طالب علم اپنے مذہب اسلام سے بھی بے گانہ ہو جائیں اور اسلام حسن اخلاق کی جو تعلیم دیتا ہے اس سے بھی وہ محروم ہو جائیں ۔ برصغیر میں تعلیمی نظام نافذ کرتے ہوئے انگریز مدبروں نے یہ بات ذہن میں رکھی تھی کہ اس کے ذریعے اگر مسلمان عیسائی نہیں ہو گا تو کم از کم مسلمان بھی نہیں رہے گا اور ایک صدی کا تعلیمی تجربہ ہمیں بتا رہا ہے کہ ان کی یہ بات سچی تھی اور آج کا تعلیم یافتہ نوجوان مسلمان اپنے دین اور حسن اخلاق دونوں سے بے بہرہ ہو چکا ہے ۔

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

معانی: محکومی: غلامی ۔ مظلومی: بے چارگی ۔ خودی سے انصاف نہ کرنا: خودمعرفتی اور خود شناسی یا اپنی خودی سے واقف نہ رہے
مطلب: جو قوم دوسروں کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی نیت کر لے وہ قوم نہ ابھر سکتی ہے نہ آزاد ہو سکتی ہے ۔ تقدیر نے ایسی قوم کے لیے غلامی اور بے چارگی لکھ دی ہے ۔

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

معانی: فطرت: قدرت ۔ افراد: فرد کی جمع ، اشخاص ۔ اغماض کرنا: چشم پوشی کرنا، دھیان نہ دینا: نظر انداز کرنا ۔ ملت: قوم، جماعت ۔
مطلب: اصول قدرت یہ ہے کہ اگر کسی قوم کے اشخاص میں سے انفرادی طور پر کوئی خطا کر بیٹھے تو قدرت اس کی خطا کو نظر انداز بھی کر سکتی ہے لیکن اگر پوری قوم کوئی خطا کر بیٹھے تو اس کی معافی نہیں ملتی اس کی سزا ضرور ملتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button