سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

مشرق

مری نوا سے گریبانِ لالہ چاک ہوا
نسیمِ صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی

معانی: نوا: آواز، یعنی شاعری ۔ گریبان لالہ: سرخ رنگ کے لالے کے پھول کا گریبان، عشق سے بھرپور نواجوان ۔ چاک ہوا: پھٹ گیا ۔ نسیم صبح: صبح کی نرم اور اور لطیف ہوا ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ میری آواز سے لالہ کے پھولوں کے گریبان چاک ہو گئے ہیں یعنی میری آواز اور میرے پیغام پر کان دھرنے والے بہت سے عاشق پیدا ہو گئے ہیں لیکن دوسری طرف صبح کی نرم و لطیف ہوا ابھی تک کسی باغ کی تلاش میں ہے کہ وہاں جائے اور کسی غنچے کو کھلائے یا کسی لالہ کے پھول کا دامن چاک کرے ۔ مراد یہ ہے کہ میرے سوا اور لوگ میرے کام میں شریک نہیں ہیں اور اہل مشرق کو خصوصاً مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے نہیں جگا رہے ۔

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

معانی: مصطفی: جدید ترکی کا بانی جس کا پورا نام مصطفی کمال پاشا ہے ۔ رضا شاہ: جدید ایران کا بادشاہ ۔ نمود: ظہور ۔ روح شرق: مشرق کی روح ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ مجھے ترکی کے مصطفی کمال پاشا اور ایران کے رضا شاہ پہلوی سے امید تھی کہ وہ میری طرح لوگوں میں سوز پیدا کر کے مشرق کی قسمت بدلیں گے لیکن افسوس ہے اس بات کا ظہور ان میں نہیں ہوا اور مشرق کی روح ابھی کسی ایسے جسم کی تلاش میں ہے جس میں داخل ہو کر وہ اپنا مقصد حاصل کر سکے یعنی ابھی تک مشرق میں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا جو میری شاعری کو حقیقت کا روپ دے کر اہل مشرق کو عروج کی اس منزل پر لے جا سکے جس کا میں خواہش مند ہوں ۔

مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن
زمانہ دار و رسن کی تلاش میں ہے ابھی

معانی: مستحق: لائق، قابل ۔ دارورسن: سولی اور رسی یعنی موت کا سامان ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی شاعری میں خودی کا درس دے کر جس طرح مشرق کے لوگوں کو جگانا چاہا تھا وہ کام تو نہ ہو سکا البتہ اس کے برعکس مشرق کے دشمنوں نے چاہے وہ خود مشرق کے اندر ہوں یا مغرب میں ہوں میری خودی کو اور اس کے پیغام کو قبول کرنے کی بجائے اسے سزا دینے کے لائق سمجھا ہوا ہے اور وہ میری خودی کے پیغام کو موت کی نیند سلانے کے لیے موت کے سازوسامان کی تلاش میں ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ لوگوں نے میری خودی کے پیغام کو صحیح طور پر نہیں سمجھا اور اس ناسمجھی کے سبب میرے اور میرے پیغامات کے خلاف ہیں اور جو کچھ میں کہتا ہوں اس لیے اس کے الٹ ہو رہا ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button