ميں نے اقبال سے از راہ نصيحت يہ کہا
عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز
تو بھی ہے شيوہ ارباب ريا ميں کامل
دل ميں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز
جھوٹ بھی مصلحت آميز ترا ہوتا ہے
تيرا انداز تملق بھی سراپا اعجاز
ختم تقرير تری مدحت سرکار پہ ہے
فکر روشن ہے ترا موجد آئين نياز
در حکام بھی ہے تجھ کو مقام محمود
پالسی بھی تری پيچيدہ تر از زلف اياز
اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
پردہ خدمت ديں ميں ہوس جاہ کا راز
نظر آجاتا ہے مسجد ميں بھی تو عيد کے دن
اثر وعظ سے ہوتی ہے طبيعت بھی گداز
دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہيں
چھيڑنا فرض ہے جن پر تری تشہير کا ساز
اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے
تيری مينائے سخن ميں ہے شراب شيراز
جتنے اوصاف ہيں ليڈر کے ، وہ ہيں تجھ ميں سبھی
تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شريک تگ و تاز
غم صياد نہيں ، اور پر و بال بھی ہيں
پھر سبب کيا ہے ، نہيں تجھ کو دماغ پرواز
”
عاقبت منزل ما وادی خاموشان است
حاليا غلغلہ در گنبد افلاک انداز