با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

لڑکياں پڑھ رہي ہيں انگريزي

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

معانی: فلاح: نجات، بہتری ۔
مطلب: مسلم لڑکیاں میں انگریزی پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ ان کے لیے خصوصی کالجوں کا اجرا ہو رہا ہے ۔ اقبال طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ یوں لگتا ہے لڑکیوں کو انگریزی پڑھا کر قوم فلاح پا جائے گی ۔

روشِ مغربی ہے مدِ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ

معانی: روشِ مغربی: انگریزوں کے طور طریقے ۔ مدِ نظر: نگاہوں کے سامنے ۔ وضعِ مشرق: مشرقی ملکوں کے طور طریقے ۔ گناہ جاننا: برا جاننا ۔
مطلب: لیکن ہوا یوں ہے کہ لوگوں نے اس طرح سے مغرب کی تہذیب اپنا لی ہے کہ وہ اپنی وضع کو عملی سطح پر گناہ سے تعبیر کرنے لگے ہیں ۔

یہ ڈراما دکھائے کا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

معانی: ڈراما: لڑکیوں کا مغربی روش اختیار کرنا ۔ سین: منظر، مراد انجام ۔ پردہ اٹھنا: سٹیج کا پردہ جس کے ہٹنے پر ڈراما شروع ہوتا ہے ۔
مطلب: اگر اس صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہ ہو گا کہ لڑکیوں میں جو انگریزی زبان عام کرنے کا عمل اپنایا گیا ہے وہ ایک ڈرامے کی حیثیت رکھتا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہو سکے گا جب لوگوں کے سامنے نتاءج آئیں گے ۔

——————–

Transliteration

Larkiyan Parh Rahi Hain Angraizi
Dhoond Li Qoum Ne Falah Ki Rah

Rawish-e-Maghrabi Hai Madd-e-Nazar
Wazaa-e-Mashriq Ko Jante Hain Gunah

Ye Drama Dikhaye Ga Kya Seen
Parda Uthne Ki Muntazir Hai Nigah

———————

The girls are learning English
The nation prosperity’s way has found

The ways of the West are in view
Eastern ways sinful are found

What scenes will this drama produce?
On curtain’s rising this will be found

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button