Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Kya Ishq Aik Zindagi-e-Mastaar Ka
علامہ اقبال شاعریبال جبریل (حصہ اول)

کيا عشق ايک زندگئ مستعار کا

کیا عشق ایک زندگیِ مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا

معانی: مستعار: مانگی ہوئی ۔ پائیدار: مضبوط ۔ ناپائیدار: کمزور ۔
مطلب: اس غزل کے پہلے شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ حیات انسانی عارضی اور فنا ہونے والی ہے اسے اس ذات مطلق سے عشق کا حوصلہ کیسے ہو سکتا ہے جو ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔

وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا

معانی: اجل: موت ۔ تپش: گرمی ۔
مطلب: وہ عشق جو فنا کے ایک تھپیڑے کا بھی متحمل نہ ہو سکے اس میں ہجر کی تپش اور انتظار میں جو اضطرابی کیفیت ہوتی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

میری بساط کیا ہے تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا

معانی: بساط: حیثیت ۔ تب و تاب یک نفس: ایک دم کی چمک دمک ۔ بے محل: بے فائدہ ۔ شرار: چنگاری ۔
مطلب: میں اپنے وجود میں ایک ایسے ستارے کے مانند ہوں جو لمحے بھر کے لیے چمک دکھا کر غائب ہو جاتا ہے ۔ مجھ سا ایک ادنیٰ انسان اس ذات مطلق سے کیسے الجھنے کا حوصلہ کر سکتا ہے جو پوری کائنات پر ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے ۔

کر پہلے مجھ کو زندگیِ جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا

معانی: زندگی جاوداں : ہمیشہ کی زندگی ۔ ذوق و شوق: شوق کے کارنامے ۔ بے قرار: بے چین ۔
مطلب: خداوندا! اگر میرا حوصلہ اور شوق وارفتگی دیکھنا ہے تو ایسی طویل عمر عطا کر جس میں فنا کا تصور بھی موجود نہ ہو ۔

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

معانی: کھٹک: چبھن ۔ لازوال: جس کو زوال نہ ہو، ہمیشہ ۔ درد: تکلیف ۔
مطلب: اے میرے معبود میرے دل کو وہ خلش عطا کر جو ہمیشہ برقرار رہ سکے اور ایسا درد دے جس کی کسک لازوال ہو ۔

رباعی

دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر

معانی: مرکز مہر وفا: محبت اور وفاداری کے مرکز ۔ حریم کبریا: بڑے عبادت خانے سے واقفیت دے ۔
مطلب: اس رباعی میں اقبال دعائیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے خداوند عزوجل سے درخواست گزار ہیں کہ مولا! انسانی قلوب کو اپنی محبت سے لبریز کر دے اور انہیں راہ وفا پر گامزن کر دے ۔

جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر

معانی: نان جویں : جو کی روٹی ۔ بازوئے حیدر: حضرت علی کی قوت ۔
مطلب: وہ مفلس و نادار اور بے سروسامان لوگ جن کے وسائل اتنے محدود ہیں کہ پیٹ بھرنے کے لیے جو کی روٹی پر ہی اکتفا کرتے ہیں تو یہی سہی تاہم ان کے بازووَں کو قوت حیدری سے بھی نواز دے ۔ اقبال نے اپنے کلام میں بے شمار مقامات پر حضرت علی مرتضیٰ کی جرات و ہمت اور استغنائی کا بار بار ذکر کیا ہے ۔ وہ ان کے مثالی کردار کے بڑی شدت کے ساتھ قائل تھے ۔

————————

Translation

Kya Ishq Aik Zindagi-e-Mastaar Ka
Kya Ishq Paidar Se Na-Paidar Ka

Woh Ishq Jis Ki Shama Bujha De Ajal Ki Phoonk
Uss Mein Maza Nahin Tapish-o-Intizaar Ka

Meri Bisaat Kya Hai, Tab-o-Taab-e-Yak Nafas
Shole Se Bemehal Hai Ulajhna Sharaar Ka

Kar Pehle Mujh Ko Zindagi Javidan Atta
Phir Zauq-o-Shauq Dekh Dil-e-Beqarar Ka

Kanta Woh De Ke Jis Ki Khatak La-zawal Ho
Ya Rab! Woh Dard Jis Ki Kasak La-zawal Ho

———————-

What avails love when life is so ephemeral?
What avails a mortal’s love for the immortal?

Love that is snuffed out by death’s passing blast
Love without the pain, the passion that consumes?

A flickering spark I am, aglow for a fleeting glance
Flow vain for a flickering spark to chase an eternal flame!

Grant me the bliss of eternal life, O Lord,
and mine will be the ecstasy of eternal love.

Give me the pleasure of an everlasting pain
An agony that lacerates my soul for ever.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button