با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

کچھ غم نہيں جو حضرت واعظ ہيں تنگدست

کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں

معانی: حضرت واعظ: منبر پر چڑھ کر وعظ کرنے والا ۔ تنگ دست: مفلس، غریب ۔ تہذیب نو: جدید معاشرہ جس پر انگریزی تہذیب کا اثر ہے ۔ سر خم کرنا: سر جھکانا ۔
مطلب: اس میں اقبال مفاد پرست واعظوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو محض چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے دین کے بنیادی اصولوں کی تردید سے بھی نہیں چوکتے ۔ سو اقبال کہتے ہیں کہ اگر حضرت واعظ ان دنوں معاشی طور پر پریشان ہیں تو انہیں اس کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے ۔

ردِ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں

معانی: ردِ جہاد: جہاد کے خلاف، ایک مرزائی رہنما نے فتویٰ دیا تھا کہ اس دور میں جہاد کی ضرورت نہیں رہی ۔ تردیدِ حج میں : یعنی حج کی بھی ضرورت نہ رہنے کے متعلق ۔ رقم کرنا: لکھنا ۔
مطلب: اسلام میں اصول جہاد کو بعض واعظوں نے غیروں کو خوش کرنے اور مال بنانے کے لیے بہت کچھ لکھا اب اس مقصد کے لیے مناسب موقعہ ہے کہ واعظ حضرت اصول حج کے خلاف بھی کوئی رسالہ لکھ ڈالیں ۔

—————–

Transliteration

Kuch Gham Nahin Jo Hazrat-e-Waaiz Hain Tang Dast
Tehzeeb-e-Nau Ke Samne Sar Apna Kham Karain

Rad-e-Jihad Mein To Bohat Kuch Likha Gya
Tardeed-e-Hajj Mein Koi Risala Raqam Karain

—————–

It does not matter if the preacher is poor
He should bend to the new civilization

It does not matter if the preacher is poor
He should bend to the new civilization

Much has been written on cancellation of jihad
He should write a tract on cancellation of hajj

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button