کوئی ديکھے تو ميری نے نوازی
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی، مقام نغمہ تازی
نگہ آلودہ انداز افرنگ
طبیعت غزنوی، قسمت ایازی
مطلب: یہ انتہائی مختصر انداز میں اقبال کی سیرت و کردار کا تجزیہ کرتی ہے ۔ امر واقع یہ ہے کہ اپنی ذاتی خصوصیات کا بیان عام طور پر خودستائی سے محمول کیا جاتا ہے ۔ کہیں علامہ اقبال نے انتہائی بے نیازی کے ساتھ اس پورے عمل کو ان چار مصرعوں میں پیش کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اگر میری نغمہ سرائی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ نفس ہندی کے ساتھ نغمے میں عرب کی حلاوت شامل ہے ۔ اسی مضمون کو علامہ نے ایک اور مقام پر یوں کہا ہے کہ نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری ۔ چنانچہ آگے چل کر کہتے ہیں کہ مغرب کے جلووں سے آلودہ ہے ۔ ہر چند کہ قسمت میں ایاز کے مانند غلامی لکھی ہے ۔ اس کے برعکس فطرت سلطان محمود غزنوی سے ملتی جلتی ہے ۔
———————
Transliteration
Koi Dekhe Tau Meri Ne Nawazi
Nafs Hindi, Maqam-e-Naghma Tazi
I wish someone saw how I play the flute—
The breath is Indian, the tune Arabian!
Nigah Aaloodah Andaz-e-Afrang
Tabiyat Ghaznavi, Qismat Ayyazi
My vision has a taint of the Western style;
I am a Ghaznavi by temper, but my fate is that of an Ayaz!
————————–