بانگ درا (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

رات اور شاعر

(1)

رات

کيوں ميری چاندنی ميں پھرتا ہے تو پريشاں
خاموش صورتِ گل ، مانند بو پريشاں
تاروں کے موتيوں کا شايد ہے جوہری تو
مچھلی ہے کوئی ميرے دريائے نور کی تو
يا تو مری جبيں کا تارا گرا ہوا ہے
رفعت کو چھوڑ کر جو بستی ميں جا بسا ہے
خاموش ہو گيا ہے تار رباب ہستی
ہے ميرے آئنے ميں تصوير خواب ہستی
دريا کی تہ ميں چشم گرادب سو گئی ہے
ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے
بستی زميں کی کيسی ہنگامہ آفريں ہے
يوں سو گئی ہے جيسے آباد ہی نہيں ہے

شاعر کا دل ہے ليکن ناآشنا سکوں سے
آزاد رہ گيا تو کيونکر مرے فسوں سے؟

(2)

شاعر

ميں ترے چاند کی کھيتی ميں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
دن کی شورش ميں نکلتے ہوئے گھبراتے ہيں
عزلت شب ميں مرے اشک ٹپک جاتے ہيں
مجھ ميں فرياد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو
تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو
برق ايمن مرے سينے پہ پڑی روتی ہے
ديکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے
صفت شمع لحد مردہ ہے محفل ميری
آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل ميری
عہد حاضر کی ہوا راس نہيں ہے اس کو
اپنے نقصان کا احساس نہيں ہے اس کا

ضبط پيغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تيرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button