بال جبریل (حصہ دوم)علامہ اقبال شاعری

خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے

 

خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے

معانی: خردمندوں : عقل مندوں ۔ فکر: سوچ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے انسان کے وجود میں آنے اور اس کے مقاصد زندگی کے حوالے سے اشارتاً بات کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس حقیقت سے تو ہر شخص آگاہ ہے کہ وہ کس طرح سے تخلیق کیا گیا لیکن میرے نزدیک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیوں تخلیق کیا گیا اور پیدائش سے موت تک کا جو سفر ہے اس کے مقاصد کیا ہیں ۔ اس کا نصب العین کیا ہے ۔ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا صحیح جواب انسان اور معاشرے میں انقلاب کی راہ ہموار کر سکتا ہے ۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

معانی: رضا: مرضی ۔
مطلب: یہ شعر اقبال کے ان اشعار میں سے ہے جنہیں ضرب الامثال کی حیثیت دی جاتی ہے ۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ انسان خودی کو انتہائی بلندی اور عروج پر لے جائے تو خالق دو جہاں اس پر مہربان ہو کر اپنی رضا اور اس انسان کی سوچ میں ایک طرح کی ہم آہنگی پیدا کر لیتا ہے ۔ یہ مقام خدا سے انسان کی انتہائی قربت کی دلیل ہے ۔

مقامِ گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے

معانی: کیمیا گر: سونا بنانے والا ۔ سوزِ نفس: جذبہ عشق کی حرارت ۔
مطلب: میرے اقوال اور اشعار میں جو تاثر اورر سوز و گداز موجود ہے اس کے بارے میں استفسار بے معنی سی بات ہے ۔ میں انسان سے محبت کرتا ہوں اس کے اور اقوام کے مسائل کا ہمدردی اور سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتا ہوں ۔ یہی رویہ بقول اقبال میرے کلام میں وہ تاثر اور سوز و گداز پیدا کرتا ہے جس کو سن کر یا پڑھ کر کوئی بھی شخص اپنے آپ کو حقیقی زندگی میں بدلنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔

نظر آئیں مجھے تقریر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے، وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے

معانی: چشمِ سُرمہ سا : وہ آنکھ جس میں بہت کشش ہو ۔ ہم نشیں : ساتھ بیٹھنے والا ۔
مطلب: جب میں نے اپنے محبوب کی خوبصورت آنکھوں کی گہرائیوں میں جھانکنے کی کوشش کی تو مجھے حقیقی صورت حال کے بارے میں کسی حد تک اندازہ ہوا اور میں اسی قدر جان سکا کہ اس کے ذہن میں میری قدر و قیمت کیا ہےمراد یہ ہے کہ حقیقی عشق میں حبیب اور محبوب کے وجود کا ہر جزو ان کے جذبوں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور معمولی سی کوشش سے اس امر کا اندازہ کرنے میں دشواری نہیں ہوتی کہ محبوب کے دل میں کیا ہے اس کی سوچ کیا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے

معانی: مجذوبِ فرنگی: جذب و مستی کی حالت میں غرق یورپی دانشور، جرمنی کا مشہور مجذوب فلسفی نیٹشا جو اپنے قلبی واردات کا صحیح اندازہ نہ کر سکا اور اس لیے اس کے فلسفیانہ افکار نے اسے غلط راستہ پر ڈال دیا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے نٹشے کے فلسفیانہ نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نٹشے میرے عہد میں ہوتا تو میں اس کو مقام کبریا سے ضرور آشنا کرتا ۔ یہ وہ فلسفی تھا جس نے غالباً سب سے پہلے سپر مین یعنی فوق البشر کا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی نیکی قوت ہے اور طاقتور انسان ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ کمزور لوگوں پر حکومت کرے ۔ اقبال کے نزدیک نٹشے میں ایمان کا جوہر تو موجود تھا لیکن اس کو کوئی حقیقی رہنما نہ مل سکا ۔ مزید یہ کہ ذاتی فلسفیانہ افکار نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا ۔ اقبال کہتے ہیں کہ میرے عہد میں وہ زندہ ہوتا تو فوق البشر کی تعریف اسے بتاتا کہ روحانی سطح پر ہی سیرت و کردار کی تعمیر سب سے بڑی نیکی ہے ۔ اور اسی کے ذریعے انسان فوق البشر بن سکتا ہے نیز مقام کبریا سے بھی آگاہ ہو سکتا ہے ۔

نوائے صبحگاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے

معانی: نوائے صبح گاہی: صبح سویرے اٹھ کر اللہ کے حضور گڑگڑانا ۔ جگر خوں کر دیا: جگر جو لہو بناتا ہے اس کا بھی لہو بہا دیا ۔ مراد اپنے آپ کو فنا کر دیا ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ جب میں صبحدم بیدار ہوتا ہوں اور معاشرتی صورت حال کا منظر سامنے آیا بالخصوص مسلمانوں کی پستی اور زوال کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل خون ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اس لمحے لاشعوری طور پر خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ اے پالنے والے ۔ آخر میں نے ایسی کون سی خطا کی تھی جس کی یہ سزا مجھے مل رہی ہے

—————–

Translation

Khird-Mandon Se Kya Puchon Ke Meri Ibtida Kya Hai
Ke Main Iss Fikar Mein Rehta Hun, Meri Intiha Kya Hai

Khudi Ko Kar Buland Itna Ke Har Taqdeer Se Pehle
Khuda Bande Se Khud Puche, Bata Teri Raza Kya Hai

Maqam-e-Guftugu Kya Hai Agar Main Keemiya-Gar Hun
Yehi Souz-e-Nafas Hai, Aur Meri Keemiya Kya Hai!

Nazar Ayeen Mujhe Taqdeer Ki Gehraiyan Uss Mein
Na Puch Ae Hum-Nasheen Mujh Se Woh Chashm-e-Surma Sa Kya Hai

Agar Hota Woh Majzoob*-e-Farangi Iss Zamane Mein
To Iqbal Uss Ko Samjhata Maqam-e-Kibriya Kya Hai

Nawa-e-Subahgahi Ne Jigar Khoon Kar Diya Mera
Khudaya Jis Khata Ki Ye Saza Hai, Woh Khata Kya Hai!

*Germani Ka Mashoor Majzoob Falsafi Natsha Jo Apne Qalbi Wardaat Ka Sahih Andaza Na Kar Saka Aur Issliye Iss Ke Falsafiyana Afkar Ne Isse Gallat Raste Par Dal Diya.

————————-

What should I ask the sages about my origin:
I am always wanting to know my goal.

Develop the self so that before every decree
God will ascertain from you: “What is your wish?”

It is nothing to talk about if I transform base selves into gold:
The passion of my voice is the only alchemy I know!

O Comrade, I beheld the secrets of Destiny in them—
What should I tell you of those lustrous eyes!

Only if that majzub* of the West were living in these times,
Iqbal could have explained to him the ‘I am.’

My heart bleeds from the song of the early morning:
O Lord! What is the sin for which this is a punishment?

*Nietzsche, the famous self‐absorbed German philosopher who could not interpret his inner experience correctly and was therefore misled by his philosophical thoughts.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button