شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجيب
شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
مقامِ شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب
معانی: شعور و ہوش و خرد: تینوں ہم معنی و ہم مقصد ہیں ۔
مطلب: عشق میں تو انسان ہر شے سے بیگانہ ہو کر نفع نقصان کی تمیز کئے بغیر برسر عمل رہتا ہے جب کہ انسانی شعور، ہوشمندی اور عقل کسی بھی عمل سے قبل اس سے حاصل ہونے والے نفع نقصان کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عناصر اور عشق کے مابین ایک طرح کی رقابت پائی جاتی ہے ۔ اقبال نے ایک دوسرے مشہور شعر میں کم و بیش اسی مضمون کو ایک نئے انداز سے باندھا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق —-عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
معانی: مسائل نظری: منطقی دلیلوں سے حل کیے جانے والے مسئلے ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ آج صورت احوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے قوم کی صحیح بنیاد پر رہنمائی کرنا تھی وہ تو اپنے منصب سے لاتعلق ہو کر فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔ ایسی صورت میں قوم کیا حشر کیا ہو سکتاہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
اگرچہ میرے نشیمن کا کر رہا ہے طواف
مری نوا میں نہیں طائرِ چمن کا نصیب
معانی: طائر چمن: باغ کا پرندہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ وہ لوگ میری شاعری میں سے کسی طور پر بھی استفادہ نہیں کر سکتے جو اس کے حقیقی مفاہیم اور اس میں موجود فکر سے آگاہ نہیں ۔ نیز اس پر عمل کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے ۔
سُنا ہے میں نے سخن رَس ہے ترکِ عثمانی
سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعرِ غریب
معانی: سخن رس: بات کو پا لینے والا ۔
مطلب: یہ شعر علامہ نے ترکی کے نجات دہندہ کمال اتا ترک کے حوالے سے کہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہرچند یہ مرد مجاہد دوررس نگاہ کا حامل ہے لیکن کوئی اگر اسے میرا یہ پیغام پہنچا دے تو مناسب ہو گا ۔ یہ پیغام اگلے شعر میں موجود ہے ۔
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
معانی: ہم جوار: ہم وطن ۔ نشیمن: قیام گاہ ۔
مطلب: جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ مصطفی کمال پاشا کے نام اقبال کے پیغام کے حوالے سے یہ شعر بھی اوپر والے شعر کا تسلسل ہے کہ اے ترکی کے مجاہدو! تم جو یورپ کی تقلید کر رہے ہو اور اس کی ہمسائیگی پر نازاں ہو اس حقیقت کو کیوں فراموش کر بیٹھے ہو کہ مرتبہ و عظمت کے حوالے سے یورپ کے مقابلے میں تمہارا ستارہ ہمیشہ بلند رہا ہے ۔
————————-
Transliteration
Kamal-e-Josh-e-Junoon Mein Raha Main Garam-e-Tawaf
Khuda Ka Shukar, Salamat Raha Haram Ka Ghilaaf
Ye Ittefaq Mubarik Ho Mominon Ke Liye
Ke Yak Zuban Hain Faqeehan-e-Shehar Mere Khilaf
Tarap Raha Hai Falatoon Miyan-e-Ghaib-o-Huzoor
Azal Se Ahl-e-Khirad Ka Maqam Hai Aaraaf
Tere Zameer Pe Jab Tak Na Ho Nazool-e-Kitab
Girah Kusha Hai Na Razi Na Shib-e-Kashaaf
Suroor-o-Souz Mein Na-Paidar Hai, Warna
Mai-e-Farang Ka The Juraa Bhi Nahin Na Saaf
————————
In my craze that knows no bound, of the Mosque I made the round:
Thank God that outer vest of Shrine still was left untorn and fine.
I wish good luck and pleasure great, To all, of faith who always prate
But all the jurists of the town with one accord upon me frown.
Men, like Plato, still roam about betwixt belief and utter doubt
Men endowed with reason, aye, Ever on the heights do stay.
Unless the Bookʹs each verse and part be revealed unto your heart,
Interpreters, though much profound, Its subtle points cannot expound
The joy that Frankish wine does give lasts not for long nor always live,
Though scum at bottom of its bowl is always pure and never foul.