ارمغان حجاز - رباعیاتعلامہ اقبال شاعری

کبھي دريا سے مثل موج ابھر کر

(Armaghan-e-Hijaz-21)

Kabhi Darya Se Misel-e-Mouj Ubhar Kar

(کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر)

Sometimes by rising from the ocean like a wave

کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر

معانی: مثل موج: لہر کی مانند ۔ خودی: اپنی پہچان ۔
مطلب: خودی، اپنی معرفت حاصل کرنے اور پھر اس کے درجہ و مرتبہ کو ظاہر سے ظاہر تر کرنے کے کئی مرحلے اور صورتیں ہیں ۔ ان مراحل اور صورتوں کو علامہ نے ایک دریا کی علامت میں بند کیا ہے ۔ انھوں نے دریا سے کائنات مراد لی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی خودی کو اجاگر کرنے اور اس کے ظہور خارجی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ دریائے کائنات میں لہروں کی مانند ابھرو مرا د ہے اس کی عناصر اور قوتوں کو مسخر کرو ۔

————————

کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر

مطلب: دوسری صورت یہ ہے کہ اس دریا کے اندر اتر کر دیکھو کہ اس میں کیا ہے اور اس سے استفادہ کرو ۔ مراد ہے کہ اس کائنات کے ذرات کے پیچھے جو خالق کی صفات اور اسما کا نور موجود ہے اسے دیکھو ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کائنات سے بالاتر ہو کر جہان روح کی سیر کرو اور روح کی بالیدگی کے اسباب پید ا کرو ۔ نفس کے خلاف جہاد کر کے دل کو غیر اللہ کے بتوں سے خالی کر دو ۔ غرض کہ مسلمان کے لئے لازم ہے کہ ہر طریقے سے اپنے اندر موجود خودی کی قوتوں کو خارج میں ظاہر کرے اور دریائے کائنات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دریا کی مرضی اس پر مسلط ہو جائے گی اور وہ اپنی لہروں میں جس طرح پسند کرے گا اسے ڈبوتا رہے گا ۔ آج مسلما ن کے زوال کا یہی سبب ہے کہ اسے اپنی معرفت حاصل نہیں ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ کن صلاحیتوں کا مالک ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر کیا جو ہر رکھے ہیں اور اسے کس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ۔

————————–

Transliteration

Kabhi Darya Se Misl-E-Mouj Ubhar Kar
Kabhi Darya Ke Sinay Mein Utar Kar

Sometimes by rising from the ocean like a wave,
Occasionally like a diver in its bosom behave.

Kabhi Darya Ke Sahil Se Guzar Kar
Maqam Apni Khudi Ka Faash Tar Kar!

At times cross beyond the ocean’s shore
To expose better your self’s real enclave.

————————–

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button