آزادی افکار
جو دونیِ فطرت سے نہیں لائق پرواز
اس مرغک بیچارہ کا انجام ہے اُفتاد
معانی: دونی: کمینگی ۔ لائق پرواز: اڑنے کے لائق ۔ مرغکِ بیچارہ: کمزور پرندہ ۔ اُفتاد: گرنا ۔
مطلب: یہ نہیں کہ علامہ اقبال آزادی افکار کے پرزور حامی نہیں تھے البتہ یہ ضرور ہے کہ ایسی آزادی کو ناپسند کرتے تھے جو تہذیبی اور اخلاقی اقدار سے تجاوز کرتی نظر آتی ہو ۔ بلندی افکار تو ہر شخص کے لیے قابل فخر بات ہوتی ہے ۔ لیکن جو افکار مادر پدر آزادی سے عبارت ہوں وہ کسی بھی معاشرے اورا س کے افراد بالخصوص نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ بے شک قومی اور عالمی سطح پر ہر عہد بالخصوص موجودہ دور میں آزادی اظہار کو انسان کے بنیادی حقوق سے وابستہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے افکار جو عملاً آزادی کے حقیقی مفہوم سے متصادم ہوں ان کو کسی طور بھی مثبت انداز سے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ اس مختصر نظم میں اقبال عملاً افکار کی آزادی کے مخالف نہیں البتہ وہ ہر نوع کی مادر پدر آزادی کی چاہت نہیں کرتے ۔ وہ ایسی آزادی کے حامی ہیں جو معاشرے کی تعمیر و ارتقاء میں مددگار ثابت ہو سکے ۔ بصورت دیگر آزادی کا منفی رویہ کسی بڑے فتنے سے کم نہیں ۔ ملاحظہ ہو! جو پست فطرت پرندہ فضا میں بلندی پر اڑنے کی صلاحیت سے محروم ہو اس صورت میں اگر وہ اڑنے کی جسارت کرے گاتو اس کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ دھڑام سے نیچے گر پڑے ۔ مراد یہ کہ افکار کی بلندی اور آزادی ہر فرد کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ۔
ہر سینہ نشیمن نہیں جبریلِ ا میں کا
ہر فکر نہیں طائر فردوس کا صیاد
معانی: نشیمن: ٹھکانا ۔ فکر: سوچ ۔ طائر فردوس: جبریل ۔ صیاد: شکاری ۔
مطلب: ہر فرد کا سینہ جبریل ا میں کے پیغامات کا متحمل نہیں ہو سکتا بالکل اسی طرح جیسے کہ فکر اقبال کے بقول بہشت کی معنویت کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی ۔ مراد یہ ہے کہ جبریل کو تو محض اس امر کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا کہ وہ حق تعالیٰ کے پیغامات اور احکامات دنیا میں اس کے پیغمبروں تک پہنچا دیں کہ ہر شخص کو ان پیغامات کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا تھا ۔
اس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
معانی: شوخیِ اندیشہ: سوچنے کی شوخی ۔ بند: پابندی ۔
مطلب: یہ شعر بھی اپنے مطالب کے لحاظ سے پہلے دو اشعار کے تسلسل میں ہے ۔ یہاں اقبال واضح طور پر اپنے اس نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں کہ جو قوم اور معاشرہ خود کو ہر نوع کی اخلاقی و تہذیبی اور دوسری انسانی اقدار کو مسترد کر کے خود کو مادرپدر آزاد قسم کی قوم اور معاشرہ تصور کر لے اس کے لیے آزادی اظہار و افکار ہمیشہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ یعنی آزادی اظہار و افکار کے لیے بھی بعض معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی پابندی ناگزیر ہے ۔
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
معانی: خداداد: خدا کا عطا کیا ہوا ۔ آزادیِ افکار: سوچ کا آوارہ ہو جانا ۔ ابلیس: شیطان ۔ ایجاد: بنائی ہوئی ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال مذکورہ پس منظر کے حوالے سے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اس کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں بے شک کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ رب ذوالجلال نے انسان کو غورو فکر اور اپنے نقطہ نظر کے اظہار کے لیے جو صلاحیت عطا کی ہے وہ معاشرے کے لیے روشن ہدایات کا کام دیتی ہے اور رہنمائی کا سبب بنتی ہے ۔ لیکن جہاں تک مادرپدر آزادی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ یہ تو شیطان کی ان ایجادات اور لعنتوں میں سے ایک ہے جو اس نے دنیا میں وارد ہو کر انسان کو گمراہی سے ہم کنار کرنے کے لیے وضع کی ہیں اور جس کا نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ۔
——————————————–
Transliteration
Jo Dooni Fitrat Se Nahin Laik-e-Parwaz
Uss Murghak-e-Bechara Ka Anjaam Hai Uftaad
Har Seena Naheman Nahin Jibreel-e-Ameen Ka
Har Fikar Nahin Tair-e-Firdous Ka Sayyad
Uss Qoum Mein Hai Shoukhi-e-Andesha Khatarnak
Jis Qoum Ke Afraad Hon Har Band Se Azad
Go Fikar-e-Khudad Se Roshan Hai Zamana
Azadi-e-Afkar Hai Iblees Ki Aejaad
————————–
FREEDOM OF THOUGHT
Falling down is the destiny of that bird
Whose duality of nature renders him unable to fly.
Not every heart is an abode to the trusty Gabriel,
Nor can every thought ensnare the Paradise like a bird.
The ecstasy of thought is dangerous in a nation
Where the individuals observe no rule.
Though God‐gifted intellect is the lamp of an age,
The freedom of thought is a Satanic concept