سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

لادين سياست

جو بات حق ہو، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دلِ خبیر و بصیر

معانی: خبیر: خبر رکھنے والا ۔ بصیر: دیکھنے والا ۔ حق: سچ ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ جو بات حق ہو یا سچ ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی کیونکہ خدا نے مجھے ایک ایسا دل دیا ہے جو ہر بات کی خبر رکھنے والا بھی ہے اور ہر معاملہ اور ہر چیز کو دیکھنے والا بھی ہے ۔

مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لادیں
کنیزِ اہرمن و دُوں نہاد و مردہ ضمیر

معانی: سیاست لادیں : بے دین سیاست ۔ کنیز اہرمن: شیطان کی لونڈی ۔ دوں نہاد: کمینہ خصلت ۔ مردہ ضمیر: مرا ہو ادل ۔
مطلب: میری نگاہ میں وہ بے دین سیاست جو اہل مغرب نے ہمیں سکھائی ہے شیطان کی لونڈی ہے کمینہ خصلت ہے اور اس کا اندرون یا دل مر چکا ہے ۔

ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر

معانی: ترک کلیسا: گرجے کو یا عیسائی مذہب کو چھوڑنا ۔ حاکمی: حکومت ۔ دیو بے زنجیر: ایسا دیو جسے آزاد کر دیا گیا ہو ۔
مطلب: مغرب والوں نے، جو عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں اپنی حکومتوں یا سیاست کو عیسائیت یا مذہب سے الگ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اہل یورپ کی سیاست ایک ایسے دیو کی مانند ہو گئی ہے جس کی زنجیریں کھول دی گئی ہوں اور وہ آزاد گھوم پھر رہا ہو یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب کی زندگی کے ہر شعبہ میں شیطان کا عمل دخل ہے ۔

متاعِ غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی
تو ہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر

معانی: متاع غیر: دوسروں کی دولت ۔ ہر اول لشکر: فوج کا اگلا دستہ ۔ کلیسا کے سفیر: گرجا کے سفیر یعنی عیسائی پادری ۔
مطلب: یہ عجیب بات ہے کہ جب لادین سیاست رکھنے والی مغربی قو میں دوسروں کی دولت پر نظر رکھتی ہیں یعنی دوسرے ملکوں کو فتح کرنا چاہتی ہیں تو اس کی فوج کے پہلے دستے کے طور پر عیسائی پادری پہنچ جاتے ہیں ۔ پہلے وہ تبلیغ سے میدان صاف کرتے ہیں اور لوگوں کوعیسائیت کی خوبیاں بتا کر اپنی طرف راغب کرتے ہیں اس کے بعد ان کے ملک کی فوجیں اس ہموار شدہ میدان پر آسانی سے قبضہ کر لیتی ہیں اور اپنی لامذہب سیاست کو عام کردیتی ہیں ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button