جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں ، زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہَ دل کے مکینوں میں
معانی: جنھیں : مراد محبوب حقیقی ۔ ظلمت خانہ: تاریک گھر، جگہ ۔ مکیں : رہنے والا ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ خدائے وحدہُ لاشریک تک رسائی حاصل کرنے کے لیے میں زمینوں اور آسمانوں کو کھنگالتا رہا جب کہ ذرا گہرائی سے دیکھا تو وہ میرے دل میں ہی موجود تھا ۔ اس لمحے مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ خدا تو انسان کے دل میں ہی رہتا ہے تا ہم اس حقیقت کے ادراک کے لیے معرفت کا شعور بنیادی شرط ہے ۔
حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی
مکاں نکلا ہمارے خانہَ دل کے مکینوں میں
مطلب: اس شعر کا مفہوم بھی کم و پیش پہلے شعر سے ملتا جلتا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جب مجھے اس امر سے آگاہی ہوئی کہ میری حقیقت کیا ہے تو اس امر کا علم بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ تو خود میرے دل میں موجود ہے ۔ مراد یہ ہے کہ رب ذوالجلال کو پانے کے لیے اپنی حقیقت تک رسائی بھی ناگزیر ہے ۔
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاقِ جبہ سائی سے
تو سنگِ آستانِ کعبہ جا ملتا جبینوں میں
معانی : آشنا: واقف ۔ مذاقِ جبہ سائی: ماتھا گھسانے یعنی سجدہ کرنے کا ذوق ۔ سنگِ آستان کعبہ: کعبہ کی چوکھٹ کا پتھر ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ خانہ کعبہ کا وہ پتھر جس کی جانب رخ کر کے ہم سجدہ ریز ہوتے ہیں اگر اس میں بھی جذبہ اور ذوق موجود ہوتا تو متحرک ہو کر خود ہماری پیشانیوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ۔
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں
کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
معانی: مجنوں : لیلیٰ کا عاشق ۔ لیلیٰ: عرب کی مشہور حسینہ جس کا رنگ کالا تھا ۔ محمل نشینوں : اونٹ پر لدے کجاوہ ، پردہ میں بیٹھنے والی ۔
مطلب: اس شعر میں مجنوں کو مخاطب کر کے اقبال استفسار کرتے ہیں کہ اتنا بتا دے کہ محض عشق میں مگن رہنے کے سوا کچھ تو نے اپنی ذات میں بھی جھانک کر دیکھا ہے اس لیے کہ میرے نزدیک تو تو بھی اسی طرح پردے میں چھپا ہوا ہے جس طرح کہ تیری محبوبہ لیلیٰ محمل نشین تھی ۔ مراد یہ ہے کہ کوئی شخص بھی اس وقت تک خود کو نہیں پہچان سکتا جب تک کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر خود کو نہ دیکھے ۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
معانی: وصل: محبوب سے ملاپ ۔ گھڑیوں کی صورت: مراد بڑی تیز ی سے ۔ مہینوں میں : مراد بہت آہستہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال محبوب سے وصل اور فراق کے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب محبوب سے وصال یعنی ملاپ کے مواقع عاشق کو حاصل ہوتے ہیں تو مہینے بھی لگا کر چند لمحوں میں اڑ جاتے ہیں جب کہ اس سے جدائی کے چند لمحات بھی مہینوں پر محیط دکھائی دیتے ہیں ۔
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
معانی: ناخدا: ملاح، کشتی چلانے والا ۔ غرق ہونا: ڈوبنا ۔ سفینوں : جمع سفینہ، کشتیاں ۔
مطلب: اے ملاح جب ڈوبنا ہی میرا مقدر ٹھہرا تو سمندر میں کودنے سے بھلا تو مجھے کس طرح روک سکے گا ۔ اس لیے کہ ڈوبنے والے تو کشتی میں بیٹھے بٹھائے بھی ڈوب جاتے ہیں ۔
چھپایا حُسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں
معانی: کلیم اللہ: خدا سے باتیں کرنے والا، حضرت موسیٰ کا لقب ۔ جس نے: خدا نے ۔ ناز آفریں : ادا پیدا کرنے والا، مراد ناز و ادا کرنے والا ۔ جلوہ پیرا: مراد اپنا حسن، تجلی ظاہر کرنے والا ۔ نازنینوں : جمع نازنین، مراد کل مخلوقات جس میں خدا کا جلوہ ہے ۔
مطلب: رب ذوالجلال نے بے شک اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر اپنا جلوہ دکھانے سے گریز کیا بلکہ اس کا وجود تو دنیا کی ہر خوبصورت چیز میں پوشیدہ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جن لوگوں میں معرفت الہٰی کی صلاحیت موجود ہے وہ تو اس کا جلوہ ہر حسین شے میں دیکھنے کے اہل ہوتے ہیں ۔
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی
الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کی سینوں میں
معانی: شمعِ کشتہ: بجھی ہوئی موم بتی ۔ موجِ نفس: سانس کی لہر، پھونک ۔ اہلِ دل: مراد عشق کا جذبہ رکھنے والے ۔
مطلب: اے رب ذوالجلال! یہ تو بتا کہ اہل دل کے سینوں میں وہ کون سی قوت پوشیدہ ہو سکتی ہے جو اپنی ایک پھونک سے بجھی ہوئی شمع کو پھر سے روشن کر سکتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تو نے ایسی کون سی صلاحیت پیدا کی ہے جو ناممکن بنانے کی اہل ہوتی ہے ۔
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
معانی: دردِ دل: مراد عشق الہٰی ۔ گوہر: موتی، دولت ۔ خزینوں : جمع خزینہ ، خزانے ۔
مطلب: اگر تجھے جذبہ عشق کے حصول کی تمنا ہے تو پھر ادھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے ان درویشوں کے پاس جا جو ہر شے سے بے نیاز ہو کر عبادت خداوندی کے علاوہ عام انسانوں کے کام آتے ہیں ۔ یہ جان لے کہ جذبہ عشق ایسا جوہر ہے جو کسی بادشاہ کے خزانے میں نہیں مل سکتا کہ یہ خزانے تو محض ہوس کے آماجگاہ ہیں ۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
معانی: خرقہ پوش: گدڑی پہننے والا ۔ ارادت: عقیدت، اعتقاد ۔ یدِ بیضا: روشن ہاتھ، حضرت موسیٰ کا ایک معجزہ ۔
مطلب: ان گدڑی پوش لوگوں کے بارے میں تحقیق و تجسس بے معنی بات ہے ۔ اے شخص اگر تجھے ان سے کچھ عقیدت و محبت ہے تو یہ راز خود ہی تجھ پر منکشف ہو جائے گا کہ یہ لوگ تو معجز نما ہیں اور اپنی آستینوں میں معجزے چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔
ترستی ہے نگاہِ نارسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں
معانی: نگاہِ نارسا: محبوب تک نہ پہنچنے والی نظر ۔ خلوت گزیں : تنہائی اختیار کرنےوالا، اللہ والا ۔
مطلب:اس شعر میں کہا گیا ہے کہ وہ آنکھیں جن کی حقیقت تک رسائی نہیں وہ ان گدڑی پوشوں کے نظارے کو ترستی رہیں گی حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہی خلوت نشین گدڑی والے بزرگوں سے ہی اس دنیا کی رونق قائم ہے ۔ ان کے بغیر تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
کہ خورشیدِ قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں
معانی: شرر: چنگاری ۔ پھونکنا: جلانا ۔ خرمن: غلے کا ڈھیر ۔ خورشید قیامت: قیامت کے روز نکلنے والا سورج ۔ خوشہ چیں : مراد فیض حاصل کرنے والا ۔
مطلب: اے میرے حبیب تو اس کائنات کی حقیقت جاننے کا خواہاں ہے تو تو اپنے خرمن دل کو ایسی چنگاری سے پھونک دے کہ آفتاب کو بھی تجھ پر رشک آئے اور وہ بھی تیرے خوشہ چینوں میں شمار ہو سکے ۔ مراد یہ ہے کہ کائنات کا احوال جاننے کے لیے اس علم کی روشنی حاصل کر جو آفتاب کے لیے بھی رشک کا سبب بن جائے ۔
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
معانی: ٹوٹنے والا دل: ذرا سی ٹھیس سے متاثر ہونے والادل ۔ نازک: جو مضبوط نہ ہو ۔ مے: شراب ۔ آبگینوں : جمع آبگینہ، شیشے کا برتن ۔
مطلب: اگر تجھے طلب عشق ہے تو وہ حساس دل تلاش کر جو شکستگی کا آئینہ دار ہو کہ عشق و محبت تو ایسی حقیقتیں ہیں جو انتہائی نازک اور حساس عوامل سے ہم آہنگ ہو سکیں ۔ مراد یہ ہے عشق ہر کسی کے بس کا روغ نہیں ۔ یہ تو ایسے دل میں جگہ پا سکتا ہے جو نازک آبگینوں کی مانند ہوتے ہیں ۔
پھڑک اٹھا کوئی، تیری ادائے ما عرفنا پر
ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں
معانی: پھڑک اٹھا: تڑپ اٹھا، عش عش کر اٹھا ۔ ادا: انداز ۔ ما عرفنا: حضور اکرم ﷺکی حدیث ہے ہم نے اے خدا تجھے ویسا نہیں پہچانا ہے جیسا پہچاننے کا حق ہے ۔
مطلب: یہ شعر عملاً نعتیہ ہے جس میں حضور سرور کائنات کے اس ارشاد کی جانب اشارہ ہے جس میں حضورنے فرمایا تھا کہ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کو پہنچانا تو ضرور! تاہم اس طرح نہیں پہچانا جیسا کہ اس کا حق تھا ۔ چنانچہ سروردوعالم کا یہ عجز خالق حقیقی کو بہت بھایا اور اس نے حضورکا مقام و مرتبہ دنیا بھر کے خوبصورت لوگوں سے بڑھا دیا او ر ان کے مراتب مزید بلند کر دیے ۔
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
جمال: حسن ۔ چرچے: جمع چرچا، شہرتیں َ باریک بیں : جس کا فہم بہت تیز ہو ۔
مطلب: اقبال حضورسرور کائنات سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے فلسفی اور دانشور ایک عرصے سے آپکی ذات والا صفات اور مراتب کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا ہیں یہ ان پر کرم ہو گا کہ حضورخود ہی ان کو اپنا جلوہ دکھا دیں تو ساری صورتحال ان کی سمجھ میں آ جائے گی ۔
خموش اے دل! بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
معانی: چلانا: زور سے بولنا ۔ ادب: دوسروں کا پاس لحاظ ۔ قرینہ: سلیقہ، ڈھنگ ۔
مطلب: اقبال یہاں کہتے ہیں کہ اے دل ناصبور! تجھے تو اپنے محبوب سے حقیقی عشق کا دعویٰ ہے اس کے باوجود تو بھری محفل میں نالہ و فریاد کر رہا ہے ۔ حالانکہ جو لوگ عشق و محبت کے دعویدار ہوتے ہیں انہیں اس حقیقت کا ادراک بھی یقیناً ہوتا ہے محبت جو قرینے ہیں ان میں ادب و احترام اولین قرینہ ہے ۔
بُرا سمجھوں انھیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
معانی: نکتہ چین: عیب ڈھونڈنے والا ۔
مطلب: اس غزل کے مقطع میں اقبال یوں گویا ہیں کہ جو لوگ میرے نکتہ چیں اور ناقدہیں انکو میں کس طرح برا کہہ سکتا ہوں جب کہ میں تو خود اپنی ذات کے نکتہ چینوں اور ناقدوں میں سے ہوں ۔
Woh Nikle Mere Zulmat Khana-e-Dil Ke Makeenon Mein
Makan Nikla Humare Khana-e-Dil Ke Makeenon Mein
To Sang-e-Astan-e-Kaaba Ja Milta Jabeenon MeinKabhi Apna Bhi Nazara Kiya Hai Tu Ne Ae Majnoon
Ke Laila Ki Tarah Tu Bhi Hai Mehmil Nasheenon MeinMahine Wasl Ke Ghariyon Ki Soorat Urte Jate Hain
Magar Ghariyan Judai Ki Guzerti Hain Mahinon MeinMujhe Roke Ga Tu Ae Na-Khuda Kya Gharaq Hone Se
Ke Jin Ko Doobna Ho, Doob Jate Hain Safeenon MeinChupaya Husn Ko Apne Kaleem-Ullah Se Jis Ne
Wohi Naz Afreen Hai Jalwa Pera Naaz Neenon Mein
Jala Sakti Hai Shama-e-Kushta Ko Mouj-e-Nafas In Ki
Elahi! Kya Chupa Hota Hai Ahl-e-Dil Ke Seenon Mein
Tamanna Dard-e-Dil Ki Ho To Kar Khidmat Faqeeron Ki
Nahin Milta Ye Gohar Badshahon Ke Khazeenon Mein
Na Puch In Kharqa Poshon Ki, Iradat Ho To Dekh In Ko
Yad-e-Baiza Liye Baithe Hain Apni Asteenon Mein
Tarasti Hai Nigah-e-Narsa Jis Ke Nazare Ko
Woh Ronaq Anjuman Ki Hai Inhi Khalwat Guzinon Mein
Kisi Aese Sharar Se Phoonk Apne Kharman-e-Dil Ko
Ke Khursheed-e-Qayamat Bhi Ho Tere Khosha Cheenon Mein
Mohabbat Ke Liye Dil Dhoond Koi Tootne Wala
Ye Woh Mai Hai Jise Rakhte Hain Nazuk Abgeenon Mein
Sarapa Husn Ban Jata Hai Jis Ke Husn Ka Ashiq
Bhala Ae Dil Haseen Aesa Bhi Hai Koi Haseenon Mein
Pharak Utha Koi Teri Adaye ‘MA ARAFNA’ Par
Tera Rutba Raha Barh Charh Ke Sub Naaz Afreenon Mein
Namayan Ho Ke Dikhla De Kabhi In Ko Jamal Apna
Bohat Muddat Se Cherche Hain Tere Bareek Beenon Mein
Khamosh Ae Dil! Bhari Mehfil Mein Chillana Nahin Acha
Adab Pehla Qareena Hai Mohabbat Ke Qareenon Mein
Bura Samajhun Inhain, Mujh Se To Aesa Ho Nahin Sakta
Ke Main Khud Bhi To Hun Iqbal Apne Nukta Cheenon Mein
—————
The one I was searching for on the earth and in heaven
Appeared residing in the recesses of my own heart
When the reality of the self became evident to my eyes
The house appeared among residents of my own heart
If it were somewhat familiar with taste of rubbing foreheads
The stone of Ka’ba’s threshold would have joined the foreheads
O Majnun! Have you ever glanced at yourself
That like Layla you are also sitting in the litter
The months of the union continue flying like moments
But the moments of separation linger for months!
O seaman, how will you protect me from being drowned
As those destined to drowning get drowned in the boats also
The one who concealed His Beauty from Kalim Allah
The same Beloved is manifest among beloveds
The breath of Lovers can light up the extinguished candle
O God! What is kept concealed in the breast of the Lovers?
Serve the fakirs if you have the longing for Love
This pearl is not available in the treasures of kings
Do not ask of these Devotees, if you have faith, you should look at them
They have the illuminated palm up their sleeves
The insightful eye for whose spectacle is tantalized
That elegance of congregation is in these very recluses
Burn the produce of your heart with some such spark
That the Last Day’s sun may also be among your gleaners
For Love search for some heart which would become mortified
This is the wine which is kept in delicate wine glasses
The Beauty itself becomes the Lover of whose Beauty
O Heart! Does someone among the beautiful has that beauty?
Someone became highly excited at your grace of Ma’arafna
Your rank remained among the most elegant of all the Lovers
Manifest Yourself and show them Your Beauty some time
Talks have continued among the sagacious since long time
Silent, O Heart! Crying in the full assembly is not good
Decorum is the most important etiquette among the ways of Love
It is not possible for me to deem my critics bad
Because Iqbal, I am myself among my critics