حضرت انسان
(Armaghan-e-Hijaz-43-Book Complete)
Hazrat-e-Insan
(حضرت انسان)
The Human Being
معانی: حضرت کے معنی جناب یا حضور ہیں ۔ مراد ہوئی جناب انسان یا انسان کے حضور میں ۔ دانش: عقل، علم، دانائی ۔ بینش: بصیرت، عقل باطنی ۔ کس درجہ: کس حد تک ۔ ازرانی: سستا ہونا ۔ نورانی: نور کا ۔ عالم : جہان، کائنات ۔
مطلب : اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل ظاہری بھی دی ہے اور عقل باطنی بھی ۔ دونوں صفتیں کثرت اور بہتات سے انسانوں میں موجود ہیں ۔ ظاہری عقل سے وہ کائنات کی ظاہری ساخت کا علم حاصل کر تا ہے اور باطنی عقل یا بصیرت سے وہ کائنات کی باطنی ساخت کا راز پا لیتا ہے ۔ ان دونوں قوتوں کے استعمال سے وہ یہ معلوم کر لیتا ہے کہ یہ کائنات کی کبھی عدم تھی ۔ موجود نہیں تھی پھر اللہ تعالیٰ نے کن (ہو جا) فیکون ( ہو گئی) کے عمل سے اسے وجود بخش دیا ۔ اسے اس بات کا بھی پتہ ہے کہ اس کائنات کے باطن میں اللہ تعالیٰ کے اسما صفات جلوہ گر ہیں ۔ کائنات کا وجود ہی ان کی بدولت ہے ۔ اگر یہ اسما اور صفات اپنی جلوہ گری بند کر دیں تو کائنات پھر عدم ہو جائے گی ۔ اس لیے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ حقیقی وجود اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ کائنات کا وجود اللہ کے وجود کی وجہ سے ہے ۔ اس لیے اس کو وجود تسلیم نہیں کر سکتے ۔ اسے موجود کہ سکتے ہیں ۔ کائنات کے ذرہ ذرہ کا وجود اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے ہے ۔ اس لیے اس کا ہر ذرہ نورانی اس نور کو عقل ظاہری تو نہیں عقل باطنی دیکھ سکتی ہے ۔
——————————-
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی
معانی: باریک: پتلا، نازک ۔ فطرت: قدرت ۔ حجاب: پردہ ۔ نمایاں : ظاہر ۔ فرشتہ: اللہ تعالیٰ کی ایک نورانی مخلوق ۔ تبسم ہائے پنہانی: چھپی ہوئی مسکراہٹیں ۔ پنہانی: چھپی ہوئی ۔ تبسم: مسکراہت ۔
مطلب: انسان اگر باطنی عقل سے یا بصیرت سے کام لے تو وہ دیکھ لے گا کہ قدرت نے کائنات پر جو ظاہری پردہ ڈالا ہوا ہے وہ بہت پتلا اور نازک ہے وہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کر سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے فرشتوں کی جو کہیں آسمانوں سے پرے عرش عظیم کے قریب رہتے ہیں مسکراہٹیں نظر آ سکتی ہیں ۔ مراد ہے کہ انسان جہاں اپنی ظاہری عقل سے ظاہری کائنات اور اس کی اشیا کا علم حاصل کرتا ہے اسے اپنی باطنی عقل اور بصیرت سے کائنات اور اس کی اشیا کی حقیقت بھی جان سکتا ہے ۔
——————————-
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی
معانی: دعوت دیدار: نظارے کی دعوت ۔ فرزند آدم: آدم کا بیٹا، انسان ۔ مستور: چھپی ہوئی ۔ ذوق: لذت ۔ عریانی: ظاہر ہونا ۔
مطلب: کائنات اور اس کی ہر شے کے دو رخ ہیں ۔ ایک ظاہری اور ایک باطنی ظاہری رخ کو تو ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن باطنی رخ دیکھنا ان کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے لیے انسان کو باطنی آنکھیں یا دل کی آنکھیں پیدا کرنی چاہیں ۔ یہ آنکھیں علم ظاہری سے نہیں باطنی علم سے پیدا ہوتی ہیں جسے روحانیت کا علم بھی کہتے ہیں ۔ کائنات میں جو کچھ پوشیدہ ہے جو کچھ اس کے پس پردہ ہے وہ ظاہر ہونے کے لیے بے تاب رہتا ہے وہ خود اپنے نظارے کی دعوت دیتا ہے لیکن اس کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر باطنی آنکھ پیدا کرے ۔
——————————-
یہی فرزند آدم ہے کہ جس کے اشکِ خونیں سے
کیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
معانی: فرزند آدم: آدم کا بیٹا ۔ اشک خونیں : خون سے بھرے ہوئے آنسو ۔ حضرت یزداں : خدا ۔ طوفانی: طوفان سے بھرے ہوئے ۔
مطلب: دنیا کے دریاؤں میں اگر طغیانی آئی ہوئی ہے تو وہ انسان کے خون سے بھرے ہوئے آنسووَں کی وجہ سے ہے ۔ مراد یہ ہے کہ خدا نے تو کائنات اور اس کی جملہ اشیا کو تخلیق کر دیا لیکن اس میں جو رونق اور جو ہنگامہ ہے وہ انسان کی وجہ سے ہے ۔ اگر انسان کو جنت سے دین نکالا نہ ملتا اورر وہ اس کی جدائی میں روتا ہوا زمین پر آباد نہ ہوتا تو ز میں پر سب کچھ ہوتے ہوئے وہ اپنے جملہ ہنگاموں اور رونقوں سے محروم رہتی ۔
——————————-
فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے
غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی
معانی: فلک: آسمان ۔ کیا خبر: کیا معلوم ۔ یہ خاکدان: یہ مٹی کا گھر، آدمی کا جسم ۔ نشیمن: آشیانہ، گھر ۔ غرض: مقصود ۔ انجم: ستارہ ۔ شبستاں : رات بسر کرنے کی جگہ ۔ نگہبانی: حفاظت ۔
مطلب: آسمان کو کیا معلوم کہ آدمی کا مٹی سے بنا ہوا جسم کس کا گھر ہے ۔ اس کی تاریکیوں میں کس کی وجہ سے رونق اور روشنی ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں پررونق ہوں ۔ مجھ پر ستارے، چاند اور سورج چمکتے ہیں ۔ حالانکہ جو رونق ہستی آدمی کے تاریک مٹی کے جسم میں جلوہ گر ہے وہ اس پر نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ مومن کا دل وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات سمائی ہو سکتی ہے ۔ اگر ہم اس دل کو واقعی دل بنا لیں تو یہ عرش اعظم بن جاتا ہے ۔ خانہ کعبہ ہو جاتا ہے ۔ جس میں سے غیر اللہ کا ہر بت نکل جاتا ہے اور صرف اللہ آباد ہو جاتا ہے ۔
——————————-
اگر مقصودِ کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہَ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے
معانی: مقصودکل: کل اشیا کی غاءت، ساری کائنات کا مطلوب ۔ میں ہوں : یعنی میں آدمی ہوں ۔ ماورا: بال و پر ۔ ہنگامہ ہائے نوبنو: نئے نئے ہنگامے ۔ انتہا: اخیر، حد ۔
مطلب: اگر یہ حقیقت ہے کہ کل کائنات اور اس کی ساری اشیا کا مطلوب میں آدمی ہی ہوں اور ہر چیز میری خدمت کے لیے پید ا کی گئی ہے تو پھر مجھ سے بالا تو کوئی شے نہیں ہو سکتی ۔ میں ہی ہر شے پر اشرف اور ہر شے سے اعلیٰ ہوں ۔ مگر شرط یہ ہے کہ میں اپنی صلاحیتوں اور صفات سے آگاہ ہو کر اور اپنی خودی کو پہچان کر ایسا مقام حاصل کر لوں ۔ اگر یہ صورت حال مجھ میں پیدا نہ ہو گی تو پھر ہر شے مجھ پر غالب آ جائے گی اور میں مغلوب رہوں گا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب اور اپنا خلیفہ اور اس اعتبار سے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے ۔ اگر میں اپنی خودی سے آگاہ ہو جاؤں گا تو ہر شے میری مغلوب ہو جائے گی ۔ یہ نت نئے ہنگامے جو اس کائنات میں خود سے آگا ہ ہونے کے لیے مجھ سے سرزد ہو رہے ہیں ان کی آخر حد کونسی ہے ۔ ان کی یہی حد ہے کہ میں خدا تو نہیں اسکی صفات اور اسما کا مظہر بن سکتا ہوں ۔ اور زمان و مکان کو اپنے قابو میں کر سکتا ہوں ۔
——————————-
Translation In English
Hazrat-E-Insan
The Human Being
To know and see is so easy in the world.
Nothing may stay hidden for this universe is luminous.
The Nature’s veil is translucent if one is willing to see:
Far too visible are the angel’s faint smiles.
This world is an invitation for the human being to look,
For every secret is given an instinct to jump out of its closet.
It is the tears of human blood that the Almighty has used
For stirring up storms in His oceans.
What would the sky know whose abode is this earthy planet;
On whose nightly banquets do the stars stand in watch?
If I am the end of all, then what lies beyond?
Where lies the limit of my unending adventures?
Jahan Mein Danish-O-Beenish Ki Hai Kis Darja Arzani
Koi Shay Chup Nahin Sakti K Ye Alam Hai Noorani
Koi Dekhe To Hai Bareek Fitrat Ka Hijab Itna
Numayan Hain Farishton Ke Tabassum Haye Pinhani
Ye Duniya Dawat-E-Didar Hai Farzand-E-Adam Ko
Ke Har Mastoor Ko Bakhsha Gya Hai Zauq-E-Uryani
Ye Farzand-E-Adam Hai K Jis Ke Askh-E-Khooni Se
Kiya Hai Hazrat-E-Yazdan Ne Daryaon Ko Toofani
Falak Ko Kya Khabar Ye Khaakdaan Kis Ka Nasheeman Hai
Gharz Anjum Se Hai Kis Ke Shabistan Ki Nighebani
Agar Maqsood-E-Kul Main Hun To Mujh Se Mawara Kya Hai
Mere Hungama Ha’ay Nau Ban Nau Ki Intiha Kya Hai?
——————————-