Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Jahan Agerchy Digrgoo Hy, Qum Be-Iznillah
اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

قم باذن اللہ

جہاں اگرچہ دِگرگوں ہے، قُم باذن اللہ
وہی ز میں ، وہی گردوں ہے، قُم باذن اللہ

معانی: قم باذن اللہ: اٹھو اللہ کے حکم سے یہ اشارہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزانہ طاقت کی طرف کہ جب وہ مردے کے سرہانے قم باذن اللہ کہتے تھے تو وہ زندہ ہو جاتا تھا ۔ دگرگوں : الٹ پلٹ ۔ قُم باذن اللہ: اللہ کے حکم سے اٹھ ۔
مطلب: اگرچہ موجودہ دور کی دنیا بالکل بدل چکی ہے اور اہل مغرب کے جادو سے دنیا اور دنیا والے مادہ پرست ہو گئے ہیں وہ تہذیب کے نام پر جہالت پھیلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہر طرف انسان نما حیوان پھر رہے ہیں اور اگرچہ یہ دنیا اے شخص یعنی اے مرد مسلمان تیرے مزاج اور عقیدے کے موافق نہیں ہے لیکن تو اللہ کے حکم سے اٹھ اور اس مردہ جہان میں بھی وہی زندگی پیدا کر دے جو کبھی اسلام اور ایمان نے پیدا کر دی تھی ۔ میں نے مانا کہ زمین بھی وہی ہے آسمان بھی وہی ہے لیکن آسمان کے نیچے رہنے والے اہل زمین بدل چکے ہیں ۔ ان کی اس بدلی ہوئی زندگی کو اللہ کے حکم سے پھر کارآمد بنانے کی ضرورت ہے ۔ تو اے مردِ مسلمان اٹھ اور اس دور کو تبدیل کر دے ۔

کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے، قُم باذن اللہ

معانی: نوائے انا الحق: منصور کا نعرہ ۔ آتشیں : آگ والا ۔
مطلب: اے مسلمان تیری رگوں میں وہی خون ہے جس نے منصور حلاج میں انا الحق ( میں حق ہوں ) کی آوا ز پیدا کر دی تھی اور وہ دار سے بے پروا اپنے اعلانِ حق پر قائم رہا ۔ اے مسلمان تیرا خون نہیں بدلا ۔ تہذیب حاضر نے تجھے بدل دیا ہے ۔ اپنے اندر جھانک تیرے اندر بھی انا الحق خون موجود ہے ۔ اس کی حرارت سے اللہ کے حکم کے تحت اٹھ کر دنیا کو بدل دے اور باطل کی جگہ حق قائم کر دے ۔

غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا
فرنگیوں کا یہ افسوں ہے، قم باذن اللہ

معانی: غمیں : غم ناک ۔ پراگندہ: بے سکون ۔ شعور ترا: تیری عقل اور سوچ ۔ فرنگیوں : انگریزوں ۔ افسوں : جادو ۔
مطلب: اے مسلمان اگر آج تیری عقل و شعور میں انتشار نظر آتا ہے تو غمگیں نہ ہو کیونکہ یہ انتشار حقیقی نہیں صرف تیرے ذہن میں ہے ۔ تو خود اپنی اسلامی اصلیت اور خون پر قائم ہے ۔ اہل مغرب نے اپنی تہذیب و ثقافت کے ذریعے تیرے ذہن میں یہ عارضی انتشار پیدا کر دیا ہے ۔ ان کے جادو کو توڑ دے اور اللہ کے حکم سے اٹھ کا نعرہ لگا اور مسلمان قوم کو اور اس جہان کو بدل دے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button