جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
مطلب: عشق ہی وہ حقیقت ہے جو انسان کو معرفت ذات سے آشنا کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ غلاموں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو جائے تو شہنشاہی کے رازوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور ان میں وہ جو ہر پیدا ہو جاتا ہے جو غلامی کی نفی کا اہل ہوتا ہے ۔
عطّار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
مطلب: اس شعر میں اقبال خواجہ فرید الدین عطا، مولانا روم، امام رازی اور امام غزالی جیسے دانشوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تنہا علم زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے انقلابی سوچ اور عمل درکار ہوتے ہیں ۔ اور یہ سب کچھ معرفت الہٰی سے ہی حاصل ہوتا ہے اور معرفت الہٰی نماز شب کے اوقات میں اللہ کے حضور گڑگڑانے سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔
نومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
معانی: فرزانہ: عقل مند ۔ کم کوش: کوشش میں سست ۔
مطلب: یہاں اقبال اہل دانش راہ نماؤں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ بے شک تمہارے مقلدین تن آساں اور بے عمل ضرور ہیں ۔ ان میں پہلے سی جفاکشی بھی باقی نہیں رہی ۔ پھر بھی ان سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کہ صحیح رہنمائی پر ان میں عمل کی صلاحیت بہرحال موجود ہے ۔
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مطلب: اقبال کا یہ شعر بھی عام طور پر زباں زد عام ہے جس میں انھوں نے علامتی حوالے سے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس رزق سے موت بہتر ہے جو عملی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔ یعنی ایسا رزق جو کشکول گدائی کے ذریعے حاصل ہو تو اس کے بجائے تو مر جانا بہتر ہے ۔ اس لیے کہ پاکیزہ رزق وہ ہے جو قوت بازو سے حاصل کیا جائے اس میں کسی دوسرے کی عنایات کا شائبہ تک نہ ہو ۔ اس شعر میں علامہ نے اپنے نقطہ نظر کو بڑے عالمانہ اور حکیمانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
معانی: اولیٰ: پہلے درجے پر بلند ۔ اسد اللّٰہی: حضرت علی جیسی بہادری ۔
مطلب: وہ مرد درویش تو دارا و سکندر جیسے عظیم المرتبت بادشاہوں کے مقابلے پر اعلیٰ مرتبے کا حامل ہے جس درویشی میں شیر خدا حضرت علی علیہ السلام کی حاکمانہ بصیرت اور اولولعزمی کی جھلکیاں ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ وہ مرد درویش جو حضرت علی مرتضیٰ کی صفات سے استفادہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے وہ بڑے بڑے عالی مرتبت بادشاہوں سے بھی بلند مرتبہ رکھتا ہے ۔
آئینِ جواں مرداں ، حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
معانی: رووباہی: لومڑی کی بزدلی ۔
مطلب: یہ شعر بھی اقبال کے ان مشہور اشعار میں سے ہے جو زبان زد خواص و عام ہیں ۔ اس شعر کی شرح کچھ اس طرح سے ہے کہ جوا نمردوں کا مسلک تو انتہائی جرات مندانہ انداز میں صداقت کا اظہار کرنا ہے اس لیے کہ ایسے لوگ تو شیروں کی سی فطرت کے حامل ہوتے ہیں جن میں لومڑیوں کے مانند بزدلی اور مکاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔
———————
Translation
Jab Ishq Sikhata Hai Adab-e-Khud Agaahi
Khule Hain Ghulamon Par Asrar-e-Shehanshahi
Attar Ho, Rumi Ho, Razi Ho, Ghazali Ho
Kuch Hath Nahin Ata Be Aah-e-Sahargahi
Naumeed Na Ho In Se Ae Rahbar-e-Farzana
Kamkosh To Hain Lekin Be-Zauq Nahin Raahi
Ae Tair-e-Lahooti! Uss Rizq Se Mout Achi
Jis Rizq Se Ati Ho Parwaz Mein Kotahi
Dara-o-Sikandar Se Woh Mard-e-Faqeer Aula
Ho Jis Ki Faqeeri Mein Boo-e-Asadullahi
Aaeen-e-Jawanmardan, Haq Goyi-o-Bebaki
Allah Ke Sheron Ko Ati Nahin Roobahi
————————————–
When through the Love man conscious grows of respect self‐awareness needs,
Though in chains, he learns at once the regal mode and kingly deeds.
Like Rumi, Attar, Ghazzali and Razi, One may be mystic great or wise,
But none can reach his goal and aim without the help of morning sighs.
No need for leaders sage and great to lose all hope of Muslim true:
Though amiss this pilgrim be, Yet can burn on fire like rue.
O Bird, who flies to the Throne of God, You must keep this truth in sight,
To suffer death is nobler far Than bread that clogs your upward flight.
Is more exalt’d than monarchs great: He spurns the worldly wealth and gold.
No doubt, the mighty Lions of God Know no tricks and know no arts.