Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Issi Quran Mein Hai Ab Tark-e-Jahan Ki Talee
اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

تن بہ تقدير

اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر

معانی: تن بہ تقدیر: جسم کو تقدیر کے حوالے کر دینا اور اپنی کوشش ترک کر دینا ۔ ترکِ جہاں دنیا چھوڑ دینا ۔ مہ و پرویں : ستاروں کے نام ۔ امیر: سالار ۔
مطلب: علامہ جب یہ کہتے ہیں کہ اسی قرآن میں اب ترک جہاں کی تعلیم ہے تو اس سے یہ مراد نہ لیں کہ واقعی قرآن بدل گیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان نے اپنی غلط تاویلوں سے قرآن سے ایسے معانی اخذ کرنے شروع کر دیے ہیں جن سے مراد دنیا کا ترک کرنا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ قرآن تو مسلمان کو چاند اور ستاروں کی تسخیر کی تعلیم دیتا ہے ۔ لیکن آج کا مسلمان ہے کہ وہ رہبانیت اور ترک دنیا کو پسند کیے ہوئے ہے ۔ یہ سب کچھ تقدیر کا غلط مفہوم پیدا کرنے اور سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے ۔

تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر

معانی: انداز: طریقہ ۔ نہاں : پوشیدہ ۔
مطلب: کبھی یہ بات تھی کہ مسلمان جس چیز کا ارادہ کرتا تھا اس کو حاصل کر لیتا تھا وہ اپنی تقدیر آپ بناتا تھا ۔ وہ جو ارادہ کرتا تھا خدا اس کو پورا کر دیتا تھا لیکن آج وہی مسلمان تقدیر پر شاکر، بے عمل بیٹھا ہے ۔ اس کے ہر عمل میں مایوسی اور بے یقینی نظر آ رہی ہے ۔

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

معانی: ناخوب: برا ۔ خوب: اچھا ۔ غلامی میں : غلامی نے ہمیں ناکارہ کر دیا ۔ ضمیر: فکر سوچ ۔
مطلب: علامہ نے یہاں ایک اصول بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ جو قوم غلام ہو جاتی ہے وہ اپنے مالک کے حکم کے تابع ہوتی ہے ۔ اس طرح اس کے نزدیک اس کے مالک کی پسند اور ناپسند کے پیش نظر اچھی چیز آہستہ آہستہ بری اور بری چیز اچھی ہو جاتی ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی وہ کہتے ہیں یہی کچھ ہوا ہے ۔ غلام بن کر مسلمان قوم تقدیر پر شاکر ہو گئی ہے اور اسے صفت اور اچھائی سمجھنے لگی ہے حالانکہ آزادی میں اس کے بالکل الٹ بات تھی ۔ مسلمان اپنی تقدیر آپ بناتا تھا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ غلامی کی زندگی میں اچھائی برائی بن گئی ہے اور ناخوب شے خوب کی صورت میں ڈھل گئی ہے ۔

 —————

Transliterations

Tan-Ba-Taqdeer

Issi Quran Mein Hai Ab Tark-e-Jahan Ki Taleem
Jis Ne Momin Ko Banaya Meh-o-Parveen Ka Ameer

‘Tan Ba Taqdeer’ Hai Aaj Un Ke Amal Ka Andaz
Thi Nihan Jin Ke Iradon Mein Khuda Ki Taqdeer

Tha Jo ‘Na-Khoob’ Batadreej Wohi ‘Khoob’ Huwa
Ke Ghulami Mein Badal Jata Hai Qoumon Ka Zameer

—————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button