آزادی نسواں
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند
معانی: آزادیِ نسواں : عورتوں کی آزادی ۔ قند: شکر ۔
مطلب: اس نظم میں آزادیِ نسواں (عورتوں کی آزادی) کی بحث کے متعلق جو دور جدید کا ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں اس بحث پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کر سکتا کیونکہ میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ زہر کیا ہوتا ہے اور شکر کیا ہوتی ہے ۔ یعنی میرے سامنے عورت کی آزادی کا زہر اورا س کی اصل اور فطری نسوانی حالت کی شیرینی کا فرق صاف موجود ہے ۔ شاعر سب کچھ جاننے کے باوجود اس پر فیصلہ کیوں نہیں دے رہا ۔
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں میں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
معانی: معتوب: عتاب کو دعوت دینے والا ۔ عتاب: بے معنی غصہ، عذاب ۔ فرزند: بیٹا ۔ خفا: ارض ۔
مطلب: پہلے شعر میں اقبال نے جو یہ کہا ہے کہ میں آزادی نسواں کی بحث کا کچھ فیصلہ نہیں کر سکتا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فیصلہ دینے کے اہل نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے جو راز ہے اس کا ذکر اس دوسرے شعر میں موجود ہے ۔ کہتے ہیں کہ اگر میں نے صحیح فیصلہ دے دیا کہ عورت اس حد تک آزاد نہیں ہونی چاہیے جس سے معاشرے میں خرابی پیدا ہو تو موجودہ تہذیب کے بیٹے یعنی اس کے گروید لوگ جو پہلے ہی میری صحیح باتوں اور مغربی تہذیب کے خلاف فیصلوں سے مجھے اپنے زیر عتاب رکھے ہوئے ہیں وہ مجھ سے اور ناراض ہو جائیں گے ۔
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں ، معذور ہیں ، مردانِ خرد مند
معانی: بصیرت: دانائی ۔ فاش کرے: ظاہر کرے ۔ معذور ہیں : مجبور ہیں ۔ مردانِ خرد مند: عقل مند لوگ ۔
مطلب: عقل مند لوگ جو آزادی نسواں کے مسئلے پر صحیح فیصلہ دے سکتے ہیں حالات کی مجبوری اور معذوری کے تحت خاموش ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں عورت کی بے لگام آزادی اتنی عام ہو چکی ہے کہ اگر کوئی اسے روکنے کی کوشش کرےگا تو عورتوں اور عورتوں کی آزادی کے علمبرداروں کے زیر عتاب آ جائے گا ۔ میں اس فیصلے کو عورت پر ہی چھوڑتا ہوں جو آج کل اپنے آپ کو بہت دانا سمجھتی ہے کہ اس راز کو اپنی دانائی سے ظاہر کر دے کہ دونوں میں سے کونسی چیز صحیح اور پسندیدہ اور کونسی غلط اور ناپسندیدہ ہے ۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔
کیا چیز ہے آراءش و قیمت میں زیادہ
آزادیِ نسواں کہ زمرّد کا گلوبند
معانی: زمرد کا گلو بند: زمرد کے قیمتی پتھروں کا بار ۔ آرایش: زینت
مطلب: اللہ تعالیٰ جس نے مرد اور عورت کے دو الگ الگ جسمانی او ر صفاتی مجسمے تخلیق کئے ہیں ۔ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے مرد کو عورت پر قوامون بنایا ہے ۔ یعنی مرد کو عورت کی حفاظت کرنے والا اور گھر بیٹھے اس کی ساری ضرورتیں پوری کرنے والا (ایک قسم کا خادم ) بنایا ہے ۔ اب اس عورت سے جو مردوں سے آزاد ہو کر اپنی انفرادی اور آزادانہ زندگی گزارنا چاہتی ہے ، علامہ پوچھتے ہیں کہ یہ بات تو ہی بتا کہ تیرے نزدیک تیری بے لگام آزادی تیری زینت اور قیمت میں زیادہ ہے یا ہیروں کا وہ ہار جو تیرے گلے میں سجا ہوا ہے اور جسے مرد نے تجھے گھر بیٹھے بٹھائے تیری زینت کے لیے عطا کیا ہے ۔ اس سوالیہ انداز سے ہوشمند عورت تو یہی جواب نکالے گی کہ میری اس آزادی سے جس میں میں نے اپنی فطری اور قدرتی ذمہ داریوں سے زیادہ خواہ مخواہ کی ذمہ داریاں مول لے لی ہیں اس لیے تو میرے لیے وہ محدود آزادی بہتر ہے جو مجھے گھر بیٹھے ملی ہوئی ہے ۔ اور جس میں بغیر میری محنت کے اور تگ و دو کے مرد مجھے زندگی کی ساری نعمتیں نصیب کر رہا ہے ۔