بانگ درا (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

غرۂٔ شوال يا ہلال عيد

غرۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تيرے ليے مسلم سراپا انتظار
تيری پيشانی پہ تحرير پيام عيد ہے
شام تيری کيا ہے ، صبح عيش کی تميد ہے
سرگزشت ملت بيضا کا تو آئينہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت ديرينہ ہے
جس علم کے سائے ميں تيغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگيں قبا ہوتے تھے ہم
تيری قسمت ميں ہم آغوشی اسی رايت کی ہے
حسن روز افزوں سے تيرے آبرو ملت کی ہے
آشنا پرور ہے قوم اپنی ، وفا آئيں ترا
ہے محبت خيز يہ پيراہن سيميں ترا

اوج گردوں سے ذرا دنيا کی بستی ديکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی ديکھ لے

قافلے ديکھ اور ان کی برق رفتاری بھی ديکھ
رہر و درماندہ کی منزل سے بيزاری بھی ديکھ
ديکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی ديکھ
فرقہ آرائی کی زنجيروں ميں ہيں مسلم اسير
اپنی آزادی بھی ديکھ ، ان کی گرفتاری بھی ديکھ
ديکھ مسجد ميں شکست رشتہ تسبيح شيخ
بت کدے ميں برہمن کی پختہ زناری بھی ديکھ
کافروں کی مسلم آئينی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی ديکھ
بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو
امت مرحوم کی آئينہ ديواری بھی ديکھ
ہاں ، تملق پيشگی ديکھ آبرو والوں کی تو
اور جو بے آبرو تھے ، ان کی خود داری بھی ديکھ
جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کيا
اس حريف بے زباں کی گرم گفتاری بھی ديکھ
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ايوانوں ميں سن
اور ايراں ميں ذرا ماتم کی تياری بھی ديکھ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی ديکھ ، اوروں کی عياری بھی ديکھ

صورت آئينہ سب کچھ ديکھ اور خاموش رہ
شورش امروز ميں محو سرود دوش رہ

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button