غريب شہر ہوں ميں، سن تو لے مري فرياد
(Armaghan-e-Hijaz-41)
Sir Akbar Haideri, Sadar-e-Azam Haiderabad Dakkan Ke Naam
(سر اکبر حیدری، صدر اعظم حیدرآباد دکن کے نام)
To Sir Akbar Hyderi The Chief Minister Of Hyderabad Deccan
Ghareeb-e-Shehar Hun Mein, Sun To Le Meri Faryad
I am quiet a stranger to the town, listen to my bewailings
غریبِ شہر ہوں میں سُن تو لے مری فریاد
کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد
مطلب: اس شعر میں ملا ضیغم لولابی کی زبان سے علامہ اقبال نے اہل کشمیر کو یہ کہا ہے کہ میں تمہارے لیے اجنبی ہوں ۔ اجنبی اس اعتبار سے کہ میرے آباء و اجداد مدت ہوئی کشمیر سے نقل مکانی کر کے برصغیر کے شمالی صوبہ پنجاب میں آباد ہو گئے تھے اور میرا اب تعلق تمہیں کشمیر کی بجائے پنجاب سے نظر آئے گا لیکن میرا دل اب بھی تمہارے ساتھ دھڑکتا ہے ۔ اس لیے تم میری نالہ کشی اور میری آہ و زاری سے جو میں اپنی شاعری کے ذریعے کر رہا ہوں اجنبی نہ رہو اس پر کان دھرو ۔ اور دیکھو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔ جب تم میرے ان نالوں اور فریادوں پر کان دھرو گے جو میں نے اپنی شاعری کے ذریعے کی ہیں تو تمہارے سینے میں بھی وہ اضطراب پیدا ہو جائے گا جو میرے سینے میں ہے اور اس طرح تم اپنی قسمت کو بدلنے اور آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی آرزو کرنے لگو گے ۔
———-
مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد
معانی: نوائے غم آلود: غم سے بھری ہوئی آواز ۔ متاع عزیز: قیمتی دولت ۔ دولت دل ناشاد: ایسے دل کی دولت جو غم زدہ ہو ۔ جہاں : دنیا ۔
مطلب: وہ دل جو اپنی بجائے دوسروں کا اور اپنی قوم کا غم کھاتا ہو دنیا میں عام نہیں ہے ۔ وہ کسی کسی کے پاس ہوتا ہے اللہ نے مجھ ایسا دل دیا ہے جو قوم کے غم سے بھرا ہوا ہے ۔ اس دل سے جو آواز پیدا ہو رہی ہے اور جسے میں اپنی شاعری کی صورت میں تم تک پہنچا رہا ہوں بہت قیمتی دولت ہے ۔ اے کشمیر کے مسلمان اسے سمیٹ لے اور اس سے اپنے دل کی کیفیات بدل لے ۔
———-
صدائے تيشہ الخ
يہ شعر مرزاجانجاناں مظہر عليہ الرحمتہ کے مشہور بياض خريطہ جواہر ، ميں ہے
Translitation
Sir Akbar Haideri, Sadar-E-Azam Haidar Abad Dakkan Ke Naam
To Sir Akbar Hyderi
The Chief Minister Of Hyderabad Deccan
On receiving a cheque of one thousand rupees as ‘entertainment’
from the privy purse of the Nizam, which is in the charge of the Chief Minister
Tha Ye Allah Ka Farman K Shikwa-E-Parwaiz
Do Qalander Ko K Hain Iss Mein Mulukana Sifaat
It was God’s command that the pomp of Parviz
Be given to the qalandar, for he has angelic attributes.
Mujh Se Farmaya K Le, Aur Shehanshahi Kar
Husn-E-Tadbeer Se De Ani-O-Fani Ko Sibat
I was told: Take it and be an emperor;
Confer permanence on the ephemeral with your talent.
Mein To Iss Bar-E-Amanat Ko Uthata Sar-E-Dosh
Kaam-E-Darvesh Mein Har Talakh Hai Manind-E-Nabat
I would have much honoured this trust—
All bitterness tastes sweet to the mouth of a dervish.
Ghairat-E-Faqr Magar Kar Na Saki Iss Ko Qabool
Jab Kaha Uss Ne Ye Hai Meri Khudai Ki Zakaat !
However, the self‐respect of faqr could not accept it
When He said: this is the charity of my Godhead.
———-