Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Gaart Ger Dain Hay Ye Zamana
تعلیم و تربیتعلامہ اقبال شاعری

جاويد سے

غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ

معانی: غارت گر دین: دین کو تباہ کرنے والا ۔ یہ زمانہ: عہد حاضر ۔ نہاد: سرشت، فطرت ۔
مطلب: علامہ اقبال کہہ رہے ہیں کہ عصر حاضر کی چمک دمک اور فریب میں نہ آجانا ۔ بظاہر یہ دور بڑ ا ترقی یافتہ اور تہذیب و تمدن کا دور نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اہل مغرب کی سازش اور غلط روش کی وجہ سے یہ دور دین اسلام کو برباد کرنے والا دور ہے ۔ اور اس کی سرشت اور جبلت میں بے دینی کے عنصر کے سوا اور کچھ نہیں ہے اس لیے اس کے اثرات سے بچنا ضروری ہے ۔

دربارِ شہنشہی سے خوشتر
مردانِ خدا کا آستانہ

معانی: دربارِ شہنشہی: بادشاہوں کی سرکار ۔ خوشتر: بہتر، زیادہ اچھا ۔ مردان خدا: اللہ کے پسندیدہ بندے ۔ آستانہ : چوکھٹ ۔
مطلب: بادشاہوں کے درباروں اور ان کی سرکار میں حاضری سے یہ بہتر ہے کہ اللہ کے برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں کی چوکھٹ پر حاضری دی جائے ۔

لیکن یہ دورِ ساحری ہے
انداز ہیں سب کے جادوانہ

معانی: ساحری: جادوگری ۔ جادوانہ: جادو بھرا انداز، طریقہ ۔ دور: زمانہ ۔
مطلب: لیکن دور حاضر جادوگری کا دور ہے اورا س کے سارے طور طریقے جادو جیسے ہیں ۔ جس طرح جادو کرنے والا خیالات اور نظروں کو باندھ کر نقل چیزوں کو اصل بنا کر پیش کرتا ہے اور ان چیزوں کو جن کا وجود نہیں ہوتا ان کو وجود دے کر سامنے لاتا ہے ۔ اسی طرح عہد حاضر بھی غلط چیزوں کو صحیح بنا کر پیش کر رہا ہے اور اس کی یہ جادوگری اور دھوکا دہی ہمیں نقل کو اصل سمجھنے پر مجبور کر رہی ہے ۔

سرچشمہ زندگی ہوا خشک
باقی ہے کہاں مئے شبانہ

معانی: سرچشمہ زندگی: زندگی کا منبع یا زندگی کے سوتے ۔ مئے شبانہ: رات کی شراب ۔
مطلب: اس دور میں اہل مغرب کی جادوگری کی وجہ سے ایسی ہوا چلی ہے یا ایسے اسباب پیدا ہوئے ہیں کہ جن کی وجہ سے دریائے زندگی کے سوتے خشک ہو گئے ہیں اور رات کی وہ شراب جو ہمارے آباء و اجداد اور ہمارے گزرے ہوئے بزرگ ہمیں پلاتے تھے یعنی صحیح علم اور معرفت کی شراب اب کہیں نظر نہیں آتی ۔

خالی ان سے ہوا دبستان
تھی جن کی نگاہ تازیانہ

معانی: دبستان: مدرسہ ۔ تازیانہ: کوڑا ۔ نگاہ: نظر ۔
مطلب: جدید دور کے مدرسے ان استادوں اور بزرگوں سے خالی ہو چکے جن کی نگاہ اپنے طالب علموں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے کوڑے کا کام دیتی تھی او ر وہ اپنی نظر اور صحبت سے ا ن کی صحیح تربیت کرتے تھے ۔

جس گھر کا مگر چراغ ہے تو
ہے اس کا مذاق، عارفانہ

معانی: مذاق: شوق ۔ عارفانہ: معرفت والا ۔
مطلب: اس شعر میں جاوید کو خاص طور پر خطاب کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ جس گھر کا تو چراغ ہے یعنی جس خاندان کا تو بیٹا ہے اس خاندان کا ذوق اور مزاج ہمیشہ سے معرفت پسند اور صوفیانہ رہا ہے ۔ تمہیں بھی چاہیے کہ اس ذوق کو اپنے اندر پیدا کرے اور زندہ رکھے ۔

جوہر میں ہو لا الہٰ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ

معانی: جوہر : اصلیت ۔ لا الہ: کلمہ طیبہ لا الہ یعنی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ فرنگیانہ: فرنگیوں کی اہل مغرب کی ۔
مطلب: علامہ نے یہاں ایک اصولی اور بنیادی بات کہی ہے اور وہ یہ کہ اگر مسلمان کلمہ توحید پڑھ کر دل سے مسلمان بن چکا ہے اور اندر سے لا الہ کی تلوار سے شیطان کو ختم کر چکا ہے تو پھر اہل مغرب کی تعلیم حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ ایمان جو اس کی اصلیت میں ہو گا وہ اسے کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرا دے گا اور فرنگی تعلیم سے وہی چیز حاصل کرے گا جو بحیثیت مسلمان اس کے فائدے کی ہو گی اور باقی سب کچھ رد کر دے گا ۔

شاخِ گل پر چہک و لیکن
کر اپنی خودی میں آشیانہ

معانی: آشیانہ: گھونسلہ ۔ خودی: اپنی شناخت اور معرفت ۔
مطلب: علامہ نے اس شعر میں ایک پرندے کی مثال دے کر راز کی بات سمجھائی ہے جس طرح کہ پرندہ پھولوں کی ٹہنی پر چہکتا ہے لیکن نظر اپنے گھونسلے پر رکھتا ہے اور ادھر اُدھر پھر پھرا کر پھر اپنے آشیانے میں آ جاتا ہے اسی طرح تو بھی اے مسلمان نوجوان، جہاں چاہے جا، جو چاہیے پڑھ لیکن اپنی خود شناسی اور خود معرفتی کے گھر کو نہ بھول ۔ اور اپنے دین اور اپنی روایات کو ہر وقت پیش نظر رکھ ۔

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ

معانی: بحر بیکرانہ: ایسا سمندر جس کا کوئی کنارہ نہ ہو ۔
مطلب: آدمی کوئی سرسری چیز نہیں ہے ۔ خاص طور پر اہل ایمان آدمی جو خدا کا نائب ہے دیکھنے میں تو وہ ایک پانی کے قطرے کی مانند یعنی محض ایک فرد نظر آتا ہے لیکن وہ قطرہ ایسا قطرہ ہے کہ اس سمندر سے بھی زیادہ وسعت رکھتا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے ۔ اے مسلمان نوجوان تو اپنی اس اصلیت کو مت بھول ۔

دہقان اگر نہ ہو تن آساں
ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ

معانی: دہقاں : کسان ۔ تن آساں : آرام طلب ۔ صد ہزار دانہ: سو ہزار دانہ ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے مسلمان نوجوان کو محنت کی قیمت سے آگاہ کیا ہے اور ایک کسان کی مثال دے کر سمجھایا ہے کہ اگر کسان آرام طلب نہ ہو اور رات دن خون پسینہ ایک کر کے محنت کرنے کا عادی نہ ہو تو وہ اس ایک دانے سے جو وہ زمین میں بوتا ہے فصل کی صورت میں سو ہزاد دانے لیتا ہے ۔ اس لیے اے نوجوان تو بھی محنت کر تا کہ کامیابی اور خوش حالی تیرے ہاتھ آئے ۔

غافل منشیں نہ وقتِ بازی ست
وقتِ ہنر است و کار سازی ست

مطلب: اے مسلمان نوجوان یہ کھیل کود کا وقت نہیں ہے بلکہ کچھ سیکھنے کا وقت ہے اور غافل ہو کر مت بیٹھ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ اور کوئی کام کر کے دکھا ۔

(۲)

سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم
رہ جاتی ہے زندگی میں خامی

معانی: دل گرم: عشق کی حرارت رکھنے والا دل ۔ خامی: کمی، نقص ۔
مطلب: اگر آدمی کے سینے میں عشق کی حرارت رکھنے والا دل نہ ہو تو سمجھیے کہ اس کی زندگی خام ہے یعنی اس میں کوئی نہ کوئی کمی یا نقص رہ گیا ہے

نخچیر اگر ہو زیرک و چست
آتی نہیں کام کہنہ دامی

معانی: نخچیر: شکار ۔ زیرک: دانا ۔ جست: چالاک ۔ کہنہ دامی: شکاری کی جال بچھانے والی پرانی مہارت ۔
مطلب: اگر شکار دانا اور چالاک ہو تو جال بچھانے میں پرانی مہارت رکھنے والا شکاری بھی اس کو جال میں پھانسنے میں ناکام رہے گا ۔ مراد یہ ہے کہ اگر میری قوم کے نوجوان دور اندیش اور بیدار ہوں تو کوئی ان کو اپنا سیاسی یا ثقافتی غلام نہیں بنا سکتا ۔

ہے آبِ حیات اسی جہاں میں
شرط اس کے لیے ہے تشنہ کامی

معا نی: آب حیات: زندگی کا پانی ۔ تشنہ کامی: پیاس ۔
مطلب: آب حیات کا چشمہ ضرور موجود ہے اور اسی جہان میں کہیں ہے ۔ اس کے ڈھونڈنے کی شرط یہ ہے کہ آدمی کو اس کی پیاس بھی ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ کسی بھی منزل کے حصول کے لیے اس تک پہنچنے کی آرزو کا ہونا ضروری ہے ۔

غیرت ہے طریقت حقیقی
غیرت سے ہے فقر کی غلامی

معانی: غیرت: خودداری، شرم و حیا ۔ طریقت حقیقی: سچی درویشی ۔
مطلب: درویش دو قسم کے ہیں ۔ ایک غیرت والے یعنی جو خوددار ہوتے ہیں اور دوسرے بے غیرت جو بے شرم اور بے حیا بن کر مانگتے اور لوٹتے پھرتے ہیں ۔ یہاں شاعر نے سچی درویشی اور صحیح صوفیانہ مسلک کا ذکر کیا ہے کہ وہ غیرت ، خودداری اور شرم و حیا کا حامل ہوتا ہے ۔ صحیح فقر کی غلامی غیرت سے ہاتھ آتی ہے ۔ بے غیرت درویش اسلامی طریقت کا مسلک درویشی کا حامل نہیں ہوتا ۔

اے جانِ پدر نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرو کی غلامی

معانی: جان پدر: باپ کی جان ۔ شاہیں : باز ۔ تدرو: تیتر ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے براہ راست اپنے بیٹے جاوید کو خطاب کیا ہے اور کہا ہے اے باپ کی جان زندگی میں شاہین بن، تیتر نہ بن ۔ کیونکہ شاہیں کبھی تیتر کا غلام یا شکار نہیں بن سکتا ۔ ہمیشہ تیتر ہی شاہیں کا شکار بنتا ہے ۔ مقصود اس نصیحت سے یہ ہے کہ شہباز جیسی خوددار اور آزاد زندگی گزارو ۔ تیتروں جیسی بے ہمت زندگی سے بچو ۔

نایاب نہیں متاعِ گفتار
صد انوری و ہزار جامی

معانی: متاعِ گفتار: بات کرنے کی دولت، مراد شاعری سے ہے ۔ انوری اور جامی: فارسی کے دو مشہور شاعر ہیں ۔ نایاب: نہ ملنے والی ۔ صد: سیکڑہ ۔
مطلب: شاعری کوئی ایسی دولت نہیں ہے جو کہیں نہ ملے ۔ اس دنیا میں انوری اور جامی جیسے سینکڑوں اور ہزاروں شاعر موجود ہیں البتہ دیکھنا یہ ہے کہ کس کی شاعری افراد کو یا اقوام کو بیدار کرتی ہے اور کس کی شاعری انہیں سلاتی ہے ۔ اس لیے اگر شاعری کا ذوق ہو تو ایسا شعر کہہ جس سے سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھے ۔

ہے میری بساط کیا جہاں میں
بس ایک فغانِ زیر بامی

معانی: بساط: حیثیت ۔ فغان زیر بامی: چھت کے نیچے کھڑے ہو کر فریاد کرنا ۔
مطلب : اس سے پہلے شعر میں علامہ نے شاعر اور شاعری کی بات کی ہے ۔ علامہ چونکہ خود بھی شاعر ہیں اس لیے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں بطور شاعر میری حیثیت کیا ہے یعنی کچھ بھی نہیں ۔ میری شاعری تو اس فریاد کی طرح کی ہے جو کوئی چھت کے نیچے کھڑا ہو کر کرے ۔ مراد یہ ہے کہ میں غلام قوم میں پیدا ہوا ہوں ۔ اگر آزاد قوم میں پیدا ہوتا تو میری شاعرانہ فریاد اس شخص کی فریاد کی طرح ہوتی جو چھت کے اوپر کھڑا ہو کر فریاد کرتا ہو یعنی وہ فریاد سنی بھی جاتی ہے ۔ میری فریاد کون سنتا ہے ۔

اک صدقِ مقال ہے کہ جس سے
میں چشمِ جہاں میں ہوں گرامی

معانی: صدق مقال: بات کی سچائی، صحیح شاعری ۔ چشم جہاں : جہاں والوں کی آنکھوں میں ۔ گرامی: عزت والا، قدر و منزلت والا ۔
مطلب: اس شعر میں بھی علامہ نے شاعری ہی کی بات کو آگے بڑھایا ہے اور کہا ہے کہ میری شاعری سچی اور صحیح شاعری ہے ۔ میں اپنے شعروں میں وہی کچھ کہتا ہوں جو ایک سچے شاعر کو کہنا چاہیے ۔ اس لیے میں جہان والوں کی نظروں میں عزت دار اور قدر و منزلت والا سمجھا جاتا ہوں ۔

اللہ کی دین ہے جسے دے
میراث نہیں بلند نامی

معانی: دین: عطا ۔ میراث: ورثہ، وراثت ۔ بلند نامی: نام کی شہرت ۔
مطلب: اپنے نام کی شہرت یا اپنی شہرت کوئی خاندانی وراثت نہیں ہے ۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جسے وہ چاہے عطا کر دے اور اس کے لیے اپنے کردار و عمل کا اعلیٰ ہونا ضروری ہے یہ بھی اللہ کی توفیق پر ہی ہے ۔

اپنے نورِ نظر سے کیا خوب
فرماتے ہیں حضرتِ نظامی

معانی: نورِ نظر: آنکھوں کا نور بیٹا ۔ نظامی: فارسی کے مشہور شاعر جو عام طور پر نظامی گنجوی کے نام سے مشہور ہیں ۔
مطلب: علامہ نے پھر براہ راست اپنے بیٹے جاوید کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیکھو نظامی گنجوی نے اپنے بیٹے سے کیا اچھی بات کہی ہے

جائے کہ بزرگ بایدت بود
فرزندیِ من نداردت سود

مطلب: جس جگہ تجھے بزرگی کا درجہ حاصل ہونا چاہیے وہاں تجھے میرا بیٹا ہونا فائدہ نہیں دے گا بلکہ تمہارے ذاتی جوہر کام آئیں گے کیونکہ بزرگی اپنے کردار و عمل سے ملتی ہے وراثت سے نہیں ۔

(۳)

مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز
دین و دولت قمار بازی

معانی: یہ شب و روز: عہد حاضر، یہ دن رات ۔ دولت: حکومت ۔ دین: مذہب اسلام ۔ قمار بازی: جوا کھیلنا ۔ گراں : بھاری،مشکل ۔
مطلب: اس نظم میں اپنے بیٹے جاوید کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں مومنوں کے لیے اس دور کے شب و روز بڑے کٹھن اور مشکل ہیں کیونکہ موجودہ زمانہ مغربی تہذیب و تمدن کی خرابیوں کی وجہ سے اتنا خراب ہو چکا ہے کہ دین اور حکومت دونوں جواری بن گئے ہیں ۔ دونوں اپنے اغراض اور مفادات کے لیے لوگوں کو داوَ پر لگائے ہوئے ہیں ۔

ناپید ہے بندہَ عمل مست
باقی ہے فقط نفس درازی

معانی: ناپید: غائب ۔ بندہ عمل مست: عمل میں مست رہنے والا بندہ ۔ نفس درازی: سانسوں کو طول دینا یعنی بے کار زندگی گزارنا ۔
مطلب: اس زمانے میں صاحب کردار اور اپنے عمل میں مست لوگ غائب ہو گئے ہیں یعنی نہیں ملتے البتہ فضول زندگی گزارنے والے اور مقصد زندگی سے غافل لوگ ضرور عام ہیں ۔

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی

معانی: فقر: درویشی ۔ حجازی: منسوب بہ حجاز یعنی اسلامی ۔
مطلب: اگر تجھ میں درویشی کی خواہش ہو اورا س کے حصول کے لیے ہمت ہو تو ایسا فقر تلاش کر جس کی جڑ حجاز میں ہو یعنی وہ فقر جو اسلامی فقر ہے ۔ یا وہ فقر جس پر الفقرُ فخری کہہ کر نبی کریم ﷺنے فخر کیا ہے ۔ اس کے سوا جو درویشی ہے وہ غیر اسلامی بھی ہے اور محض ڈھونگ بھی ہے ۔

اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی

معانی: پیدا: ظاہر ۔ بے نیازی: بے پروائی ۔
مطلب: جس اسلامی اور حجازی فقر یا درویشی کی اے بیٹے میں بات کر رہا ہوں اس فقر سے آدمی کے اندر اللہ کی بے پروائی کی شان پیدا ہو جاتی ہے یعنی وہ اللہ کے علاوہ ہر شے سے بے پرواہ ہو جاتا ہے ۔ مرا د یہ ہے کہ وہ فقر کسی کا یا کسی شے کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر دوسرا اس فقر کا یا مرد فقیر کا محتاج ہوتا ہے ۔ وہ فقر جس میں احتیاج ہو یا خود محتاجی ہو وہ فقر نہیں ہے ۔

کنجشک و حمام کے لیے موت
ہے اس کا مقامِ شاہبازی

معانی: کنجشک: چڑیا ۔ حمام: کبوتر ۔ مقام: مرتبہ ۔ شاہبازی: باز جیسا ۔
مطلب: جس فقر کی میں بات کر رہا ہوں وہ شاہبازوں جیسے مرتبہ والے فقر کی بات ہے ۔ شاہباز فضاؤں میں آزاد اڑتا ہے ۔ پہاڑوں پر اپنا ڈیرا بناتا ہے اپنا شکار خود کرتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ فقر جس سے نبی کریم ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے وہ محتاجی کا فقر ہے جس میں فقیر چڑیوں اور کبوتروں کی طرح دانہ دنکا کا محتاج ہوتا ہے اور دوسروں کے بھروسے پر زندگی بسر کرتا ہے ۔ یہ اس کی زندگی نہیں یہ اس کی موت ہے ۔

روشن اس سے خرد کی آنکھیں
بے سرمہَ بو علی و رازی

معانی: خرد: عقل ۔ بو علی و رازی: بو علی سینا اور فخر الدین رازی جو عقل پسند یا فلسفی تھے ۔
مطلب: اس شعر میں بھی فقر اسلامی کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ ایک عقل تو وہ ہے جو اپنی آنکھوں میں بو علی سینا اور فخر الدین رازی کے فلسفہ کا سرمہ ڈالے تو روشن ہوتی ہے لیکن یہ عقل طالب کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی اور حقیقت کا مشاہدہ نہیں کراتی ۔ دوسری عقل وہ ہے جسے فقر کا سرمہ روشن کرتا ہے یہ عقل منزل مقصود پر بھی پہنچاتی ہے اور حقیقت کا مشاہدہ بھی کراتی ہے اس لیے اے بیٹے فقر والی عقل کی تمنا کر ۔

حاصل اس کا شکوہِ محمود
فطرت میں اگر نہ ہو ایازی

معانی: حاصل: نتیجہ، ثمر، پھل ۔ فطرت: سرشت ۔ شکوہ : دبدبہ ۔ ایازی: غلامی ۔
مطلب: اسلامی فقر محمود غزنوی کا سا دبدبہ اور ہیبت لیے ہوتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کی سرشت میں ایازی نہ ہو ۔ محمود غزنوی اپنے ایک غلام ایاز کا بہت چاہتا تھا اور اس کی مرضی کو فوقیت دیتا تھا جس کے نتیجہ میں اس کے شکوہ میں فرق آتا تھا ۔ فقر بھی اگر کسی کا محتاج ہو اور اپنی بے نیازانہ شان نہ رکھتا ہو تو وہ بھی درست نہیں ۔ اسلامی فقر کا جلال اور دبدبہ اس میں ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہ ہو دوسرے اس کے محتاج ہوں ۔

تیری دنیا کا یہ سرافیل
رکھتا نہیں ذوقِ نے نوازی

معانی: سرافیل: وہ فرشتہ جس کے صور پھونکنے سے مردے قیامت کے روز زندہ ہو جائیں گے ۔ ذوق نے نوازی: بانسری بجانے کا ذوق ۔
مطلب: دور جدید جس نے اپنی ترقی کے باوجود مجد انسانیت اور شرف آدمیت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے اپنے اندر ایسی قوت اور صلاحیت نہیں رکھتا کہ مردہ دلوں کو زندہ کر دے ۔ جس طرح قیامت کے روز اسرافیل فرشتہ صور پھونکے گا تو سب مردے قبروں سے زندہ نکل کھڑے ہوں گے ۔ زمانہ حاضر کی بانسری میں ا س قسم کی تاثیر نہیں ۔ ہاں فقر کی بانسری بجانے کا اگر ذوق نصیب ہو تو وہ اسرافیل کی طرح آدمی کے مردہ دل کو زندہ کر سکتی ہے اور زمانہ جدید کے آدمی کو پھر سے حیوان سے انسان اور مردہ دل سے زندہ دل بنا سکتی ہے ۔

ہے اس کی نگاہِ عالم آشوب
درپردہ تمام کارسازی

معانی: نگاہ عالم آشوب: دنیا میں تلاطم پیدا کرنے والی نظر ۔ درپردہ: پوشیدہ ۔ تمام: سب ۔ کارسازی: بگڑا ہوا کام بنانا ۔
مطلب: مرد فقیر کی نگاہ اسرافیل کی طرح مردہ دلوں کو زندہ کرنیوالی ہوتی ہے ۔ اس کی نگاہ دنیائے دل میں تلاطم پیدا کر کے اس کو صحیح دل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ ایسی نگاہ جو دنیا میں انقلاب پیدا کر دے ۔ لوگوں کی تقدیریں بدل دے ۔ وہ پوشیدہ طور پر کار ساز ہوتی ہے ۔ آج کے پیشہ ور فقیر خود گداگر ہیں ۔ وہ اپنی محتاجی دور نہیں کر سکتے دوسروں کے بگڑے ہوئے کام کیسے بنائیں گے ۔ یہ کام اصل فقر اور اسلامی فقیر کا ہے کہ وہ لوگوں کی کارسازی کرتا ہے ۔

یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی

معانی: فقر غیور: غیرت مند فقر ۔ بے تیغ و سنان: بغیر تلوار اور نیزے کے ۔ مردِ غازی: جہاد میں شریک ہو کر زندہ بچ رہنے والا صاحب ایمان سپاہی ۔
مطلب: جس شخص کو خوددار ، غیرت مند اور بے نیاز دو جہان کی صفات والا فقر حاصل ہو جاتا ہے اسے میدان جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے تلوار اور نیزے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ ان آلات حرب کے بغیر ہی فریق مقابل کے سامنے آ جاتا ہے اور اپنی نگاہ سے تلوار اور نیزے کا کام لیتا ہے ۔ مرد فقیر کی نگاہ تقدیریں بدل دیتی ہے ۔ وہ تلوار کا نہیں نگاہ کی ضرب لگانے والا مرد میدان ہوتا ہے اور ہمیشہ فتح یاب ہو کر غازی بنتا ہے ۔

مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری

معانی: مومن: صحیح اہل ایمان ۔ فقیری: درویشی ۔
مطلب: جو اہل ایمان واقعی مرد مومن ہوتا ہے اس کی امیری دولت کی امیری نہیں ہوتی بلکہ دولت فقر کی امیری ہوتی ہے ۔ دھن دولت تو چھاؤں ہے ۔ آج ہے کل نہیں ہے ۔ فقر کی دولت وہ دولت ہے جس کو نہ زوال ہے اور نہ کوئی اسے چھین سکتا ہے ۔ مرد فقیر کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ سب اس کے محتاج ہوتے ہیں ۔ اور وہ محتاجوں کی احتیاج دور کرتا ہے ۔ اس کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ وہ خود کسی کا محتاج ہو ۔ اے بیٹے اللہ سے دعا کر کہ وہ تمہیں فقر کی یہ دولت عطا کردے ۔ دنیا کی دولت تو آنی جانی شے ہے ۔ اس پر فقر کی دولت کو قربان نہ کر دینا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button