سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

خواجگی

دورِ حاضر ہے حقیقت میں وہی عہدِ قدیم
اہل سجادہ ہیں یا اہلِ سیاست ہیں امام

معانی: خواجگی: خواجہ ہونا یعنی کسی کو اپنا مالک بنانا ۔ آقائی ۔ عہد قدیم: پرانا زمانہ ۔ اہل سجادہ: پیری کی گدیوں کے مالک ۔
مطلب: جہاں تک لوگوں کے ذہن و قلب اور جسم و روح پر حکمرانی یا آقائی کا تعلق ہے ۔ علامہ کہتے ہیں کہ اس میں پرانے اور نئے زمانے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ پرانے زمانے کی طرح آج کے زمانے میں بھی دراصل لوگوں پر وہی لوگ حکومت کر رہے ہیں جو پیری کی بڑی بڑی گدیوں کے مالک ہیں یا سیاسی میدان کے پیشوا ہیں ۔

اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور
سکیڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام

معانی: میری: امیری ۔ خوگر: عادی ۔
مطلب: یہ جو گدیوں کے مالک یا سیاسی وڈیرے لوگوں پر حکومت کرتے ہیں اس میں نہ تو پیروں کا کوئی اعجاز ہے اور نہ امیروں کی کسی قسم کا کرشمہ ہے بلکہ بات یہ ہے کہ خود لوگ ہی سیکڑوں سالوں سے غلامی کے عادی ہیں ۔ اس وجہ سے پیروں ، امیروں اور وڈیروں کے لیے ان پر حکومت کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ۔ جب تک عوام میں آزادی کا شعور پیدا نہیں ہو گا یہ لوگ ان کے آقا بن کر ان پر اسی طرح چھائے رہیں گے ۔

خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام

معانی: خوئے غلامی: غلامی کی عادت ۔ پختہ ہونا: پکا ہونا ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے غلامی اور آقائی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب غلام لوگ غلامی کی عادت میں پکے ہو جائیں اور غلامی کا مزہ ان کی رگ رگ میں بس جائے تو پھر ایسے لوگوں پر آقائی کرنا ان پر حکمرانی کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button