با ل جبر یل - رباعيات

دم عارف نسيم صبح دم ہے

دمِ عارف نسیمِ صبحدم ہے
اسی سے ریشہَ معنی میں نم ہے

اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

مطلب: اس رباعی میں کہا گیا ہے کہ جو شخص صاحب عرفان ہوتا ہے اس کا سانس بھی نسیم سحری کے مانند لطافت کی حامل ہوتی ہے اور اسی کے سبب انسان حقیقت ابدی سے آشنا ہوتا ہے ۔ اس کی بے حد اہم مثال رب ذوالجلال کے دو پیغمبروں حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ کی ہے کہ آخر الذکر نے اول اول حضرت شعیب کی بکریاں چرائیں پھران کے اتنے محبوب ہو گئے کہ حضرت شعیب نے انہیں اپنا داماد بنا لیا اور بیٹی سونپ دی ۔ مراد یہ ہے کہ صاحب عرفان کسی بھی معمولی شخص کو انتہائی رفعتوں سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

———————–

Transliteration

Dam-e-Arif Naseem-e-Subahdam Hai
Issi Se Resha-e-Ma’ani Mein Nam Hai

The mysticʹs soul is like the morning breeze:
It freshens and renews lifeʹs inner meaning;

Agar Koi Shoaib Aye Mayassar
Shabani* Se Kaleemi Do Kadam Hai

*Shaban ka matlab Charwaha/Gaderiya

An illumined soul can be a shepherdʹs, who
Could hear the Voice of God at Godʹs command.

————————–

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button